وزیراعلیٰ بلوچستان اور مخالفین کا دنگل اسمبلی میں ہونے کا امکان

 وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک اعتماد جمع ہونے کے بعد اس کی سات دنوں کی مدت 19 اکتوبر کو پوری ہو رہی ہے، جس کے بعد اسمبلی میں دونوں فریق آمنے سامنے ہوں گے۔

وزیر اعلیٰ جام کمال کہہ چکے ہیں کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے (تصویر: ریڈیو پاکستان)

بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال اور ناراض ارکان کے اسلام آباد سے واپسی کے بعد سیاسی  گرما گرمی کوئٹہ منتقل ہوچکی ہے۔ اب بظاہر دونوں فریقین نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھا کر ہی اس کا فیصلہ کریں گے۔

بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) ناراض اراکین نے کوئٹہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتےہوئے کہا کہ جام کمال اگر مقابلہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں تو مقابلہ کر لیں، جبکہ سپیکر بلوچستان اسمبلی اور ناراض ارکان میں سے ایک عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں گمراہ کن صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے دن پتہ چل جائے گا کہ اکثریت کس کے پاس ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جام کمال پارٹی سے استعفیٰ دے چکے ہیں اب وہ پارٹی کے صدر نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رواں ماہ کی 20 تاریخ کو تحریک عدم اعتماد کو بلوچستان اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت اپنی موجودہ  آئینی مدت پوری کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان صوبے کے پہلے بھی وزیر اعلیٰ تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔

ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے کہا کہ جو عناصر بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے انہوں نے کہا کہ  وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی شروع دن سے ہی یہی کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کی مخلوط حکومت  اور اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں لیکن کچھ عناصر شروع سے ہی بلوچستان کی ترقی اور وزیر اعلیٰ کے مخالف رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف ’سازش ہرگز کامیاب نہیں ہوگی۔‘ 

واضح رہے کہ ناراض اراکین لیاقت شاہوانی کو بلوچستان حکومت کا نہیں بلکہ جام کمال کا ترجمان قرار دیتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ناراض ارکان کو کامیابی ملی ہے۔ جام کمال مدد حاصل کرنے اور مخالف گروپ کے سیاسی قائدین کو غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرنے آئے تھے۔

بلوچستان کی سیاست اور حالات پر نظر رکھنے والے اسلام آباد میں مقیم سینیئر صحافی اور تجزیہ کار بلال ڈار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موجودہ صورت حال میں وزیراعلیٰ کو اپنی وزارت بچانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ناراض ارکان اور وزیراعلیٰ جام کمال کی اسلام آباد میں ملاقاتیں بھی اسی ضمن میں تھیں۔ بلال ڈار کے بقول جام کمال نے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی اور ان سے بحران سے نکلنے میں مدد مانگی۔

بلال ڈار نے بتایا کہ ’وزیراعظم نے جام کمال کو کہا کہ ہم اتحادی ہیں اور رہیں گے، لیکن جو موجودہ سیاسی بحران ہے وہ آپ کے جماعت کا اندرونی مسئلہ ہے۔ ہم اس لڑائی میں شامل نہیں ہوسکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان ذرائع نے انہیں بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان بھی ملاقات میں موجود تھے اور انہوں نے جام کمال کو یاد دلایا کہ وہ جب بھی کوئٹہ کا دورہ کرتے ہیں تو بلوچستان کے پارلیمانی رہنما شکایات کے انبار لے کر آتے، جس کی وجہ سے جماعت کو بھی نقصان پہنچا۔

تجزیہ کار بلال کہتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی کھل کر ناراض گروپ کی مدد کررہے ہیں۔ ’انہوں نے ان کی مقتدر حلقوں سے بات بھی کروائی اور ان کے لیے راہ بھی ہموار کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سیاسی بحران کے دوران چیئرمین سینیٹ متعدد بار بلوچستان کا دورہ بھی کرچکے ہیں اور ناراض ارکان سے بھی ملاقات بھی کر چکے ہیں۔

بلال کا مزید کہنا تھا کہ جب بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تو اس وقت صوبے میں موجود اسٹیبلشمنٹ نے اس پر شدید غصے کا اظہار کیا تھا۔ ’ناراض ارکان نے قرآن پر حلف لیا ہے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔‘

اس وقت بلوچستان میں حکمران جماعت کے ناراض 14 ارکان نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے، جس میں آئینی طور پر سات دنوں کے بعد اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری ہے۔ 

واضح رہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اس سے قبل اپنے ٹوئٹر اکاؤںٹ پر جماعت کی صدارت چھوڑنےکی ٹویٹ کی تھی، جس پر جماعت جنرل سیکرٹری نے ظہور بلیدی کو قائم مقام صدر بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔

اس صورت حال پر گذشتہ دنوں بلوچستان عوامی پارٹی کے چیف آرگنائزر جان محمد جمالی نے بھی کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرکے کہا کہ وہ ناراض گروپ اور وزیراعلیٰ کے درمیان معاملات حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

قائم مقام صدر سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئےکہا کہ انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ نہیں دیا بلکہ انہوں نےایک رضاکارانہ تجویز پیش کی تھی۔

اس صورت حال پر بی اے پی کے جنرل سیکرٹری منظور کاکڑ نے نجی ٹی وی چینل کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جام کمال کا جماعت کے صدارت سے استعفیٰ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت ذاتی اکاؤنٹ سے قابل قبول ہے۔

منظور کاکڑ نے بتایا کہ جام کمال نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ جنرل سیکرٹری نے دانستہ طور پر غلطی نہیں کی۔ ’انہوں نے دس سے پندرہ دن کے اندر استعفیٰ کیوں واپس نہیں لیا؟‘

بلوچستان میں وزرائے اعلیٰ کی تاریخ

بلوچستان میں گذشتہ ادوار کو دیکھیں تو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل، نواب اسلم رئیسانی ، نواب ثنااللہ زہری کو بھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اس کی وجہ تجزیہ کار بلال ڈار ’قبائلیت اور اسٹیلشمنٹ کے کنٹرول‘ کو قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’بلوچستان میں قبائلیت اب بھی موجود ہے اور اراکین اسمبلی میں ایک دوسرے کی کوتاہی کو برداشت کرنے کا رویہ کم دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف یہاں کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے مکمل کنٹرول میں رہتی ہے ‘

انہوں نے کہا: ’یہ صوبے کی بدقسمتی ہے کہ یہاں بار بار تبدیلی آتی رہتی ہے اور جو کچھ کام کرنا چاہتا ہے وہ بھی نہیں کرسکتا ہے۔ دوسرے جو نااہل ہوتے ہیں اور کام  نہیں کرتےان کو بھی موقع ملتا ہےکہ کہہ سکیں کہ ہمیں تو موقع ہی نہیں ملا۔‘

تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا فیصلہ 

بلال سمجھتے ہیں کہ جام کمال کا تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا فیصلہ اور استعفیٰ نہ دینا ایک درست اقدام ہے۔ انہوں نے سابقہ وزرائے اعلیٰ کی طرح پیچھے ہٹنے کے بجائے آخری بال تک کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے، جو یہاں کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔

وزیراعلیٰ جام کمال نے اسلام آباد جانے سے قبل کوئٹہ میں مقامی ایڈیٹرز سے بھی ملاقات کی تھی، جس میں انہوں نے اپنا موقف سامنے رکھا تھا۔ ان میں ایک سینیئر صحافی عبدالخالق رند بھی موجود تھے۔

عبدالخالق رند نے اس ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ جام کمال اس دوران انتہائی پراعتماد نظر آئے اور انہوں نے چند لوگوں کی خواہش پر مستعفیٰ ہونے کے تاثر کو مسترد کردیا۔

انہوں نے بتایا : ’جام کمال نے ہمیں بتایا کہ اس وقت بھی انہیں 26 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ وہ کسی بھی صورت حال کا سامنا کرسکتے ہیں۔ ‘

خالق رند کے بقول: ’اس ملاقات میں میں نے محسوس کیا کہ جام کمال ہمیں یہ بتانا چاہتے تھے کہ انہیں اس تمام صورت حال سے کوئی پریشانی نہیں ہے‘

بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے اور قائد ایوان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 33 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔

بلوچستان میں اپوزیشن اراکین، جس کی تعداد 23 ہے، وہ گذشتہ تین سال سے وزیراعلیٰ جام کمال سے نالاں رہے ہیں اور انہوں نے اس کے خلاف دھرنا دیا اور اسمبلی میں داخل ہونے سے انہیں روکنے کی کوشش بھی کی، جس پر ان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا تھا۔

تحریک اعتماد جمع ہونے کے بعد اس کی سات دنوں کی مدت 19 اکتوبر کو پوری ہو رہی ہے۔ تاہم 12 ربیع الاول کو تعطیل کے باعث امکان ہےکہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 20 کو طلب کیا جاسکتا ہے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست