ترک صدر کا 10 ملکوں کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کا حکم

امریکہ ، جرمنی ، کینیڈا ، ڈنمارک ، فن لینڈ ، فرانس ، نیدرلینڈز ، نیوزی لینڈ ، ناروے اور سویڈن کے سفیروں نے مشترکہ بیان میں سول سوسائٹی کے ایک رہنما کی رہائی کی اپیل کی تھی۔

صدر رجب طیب اردوغان نے مذکورہ سفیروں پر ’بے حیائی‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’انہیں ترکی کو جاننا اور سمجھنا چاہیے۔‘ (اے ایف پی)

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ہفتے کو اپنے وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ وہ جرمنی اور امریکہ سمیت 10 ممالک کے سفیروں کو نکال دیں جنہوں نے جیل میں بند سول سوسائٹی کے ایک رہنما کی رہائی کی اپیل کی تھی۔

انہوں نے سفارت کاری میں استعمال ہونے والی اصطلاح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اپنے وزیر خارجہ کو حکم دیا ہے کہ وہ جلد از جلد ان 10 سفیروں کو ’پرسونا نان گراٹا‘ قرار دیں۔‘

تاہم انہوں نے اس حکم پر تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ مقرر نہیں کی۔

انہوں نے سفیروں پر ’بے حیائی‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’انہیں ترکی کو جاننا اور سمجھنا چاہیے۔‘

انہوں نے سفیروں کے بارے میں کہا کہ ’انہیں اس دن یہاں سے چلے جانا چاہیے جب وہ ترکی کو نہیں جانتے۔‘

سفیروں نے پیر کو ایک انتہائی غیر معمولی مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیرس میں پیدا ہونے والے رضاکار عثمان کاوالا کی مسلسل حراست نے ترکی پر ’سایہ ڈال دیا ہے‘۔

امریکہ ، جرمنی ، کینیڈا ، ڈنمارک ، فن لینڈ ، فرانس ، نیدرلینڈز ، نیوزی لینڈ ، ناروے اور سویڈن نے کاوالا کیس کے فوری حل کا مطالبہ کیا تھا۔

کاوالا 2017 سے بغیر کسی سزا کے جیل میں ہیں۔ انہیں 2013 کے حکومت مخالف مظاہروں اور 2016 میں ناکام فوجی بغاوت سے منسلک الزامات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد اردغان کی طرف سے جاری کریک ڈاؤن کی ایک علامت بن گئے ہیں۔

گذشتہ ہفتے جیل خانے سے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کاوالا نے کہا کہ ’وہ اردوغان کی دو دہائیوں پر محیط حکمرانی کے دوران سامنے آنے والی اندرونی مخالفت کے لیے غیر ملکی سازش کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوششوں میں خود کو ایک آلے کی طرح محسوس کرتے ہیں۔‘

کونسل آف یورپ، جو براعظم میں انسانی حقوق کی نگران ادارہ ہے، ترکی کو حتمی انتباہ جاری کرچکی ہے کہ وہ 2019 کی یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے حکم کی تعمیل کرے تاکہ کاوالا کو زیر التوا مقدمے سے رہائی مل سکے۔

اگر ترکی 30 نومبر سے دو دسمبر کو ہونے والی اپنی اگلی میٹنگ تک ایسا کرنے میں ناکام رہا تو سٹراسبرگ میں قائم کونسل انقرہ کے خلاف اپنی پہلی انضباطی کارروائی شروع کرنے کے لیے ووٹ دے سکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا