’دلی سکون‘ کے لیے اخباری تراشے محفوظ رکھنے کا شوق

66 سالہ محمد رمضان ساریو سندھی اخبارات سے مختلف واقعات کی خبریں اور کالم کٹنگز کی صورت میں جمع کرکے فائلز بنا لیتے ہیں۔

صوبہ سندھ میں ضلع لاڑکانہ کے علاقے موہن جو دڑو کے قریب گاؤں بلھڑیجی کے ایک باسی نے چار دہائیوں کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے پانچ صندوق اخباری تراشوں سے بھر رکھے ہیں۔

66 سالہ محمد رمضان ساریو، جنہیں لوگ پیار سے ماما رمضان کے نام سے پکارتے ہیں، سندھی اخبارات سے مختلف واقعات کی خبریں اور کالم کٹنگز (تراشوں) کی صورت میں جمع کرکے فائلیں بنا لیتے ہیں۔ وہ 41 سال سے یہ تراشے جمع کرتے آ رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ماما رمضان کا کہنا تھا کہ وہ 1980 سے اخباری تراشوں کی فائل بنانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کٹنگز میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک (ایم آر ڈی)، ضیا آمریت، مشرف مارشل لا اور بینظیر بھٹو کے قتل سمیت مختلف واقعات کے بارے میں سندھی اخبارات کی خبریں موجود ہیں۔ ان کے پاس اس دور سے آج تک نامور سندھی لکھاریوں کے شائع شدہ آرٹیکلز کی کٹنگز بھی موجود ہیں۔

اخباری تراشے جمع کرنے کے شوق کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’1980 میں انور پیرزادو صاحب ہلال پاکستان اخبار میں کام کرتے تھے، اس وقت وہ اچانک میرے گھر آئے، ان کا اخبار میرے پاس رہ گیا، جب میں نے اٹھایا  اور دیکھا تو میں نے سوچا کہ اس کو کاٹ کر فائل بناؤں تو یہ بہتر ہوگا۔ اسی طرح اس کام کی شروعات میں نے انور صاحب کے کالم کی کٹنگز جمع کرنے سے کی۔‘

ماما رمضان ساریو اس کام سے بہت مطمئن ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’اخباری کٹنگز جمع کرنے سے مجھے دلی سکون ملتا ہے کہ میں ان واقعات کو محفوظ کرتا ہوں۔‘

اخباری تراشوں کے ساتھ ساتھ ماما رمضان بلھڑیجی اور آس پاس کے مریضوں کے بارے میں تفصیلات جمع کرکے ان کی فائل بھی بناتے ہیں اور ان مریضوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میرے  پاس سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی کم از کم 10 ہزار کے قریب فائلز ہیں۔ ہم ان مریضوں کی مدد کرتے ہیں، جو ہمارا حال ہے، دور دراز شہروں میں مریضوں کے پاس تب تک ساتھ رہتا ہوں جب تک وہ مکمل صحت یاب نہیں ہو جاتے۔‘

ان کے مطابق: ’سماجی کام میں لوگ تعاون کرتے ہیں، ہمارے پاس وہ لوگ آتے ہیں جو لاچار اور بے سہارا ہوتے ہیں، وہ کبھی یہاں سے خالی ہاتھ واپس نہیں گئے۔‘

ماما رمضان ایک کریانے کی دکان بھی چلاتے ہیں اور اسی دکان میں انہوں نے الماری میں اخبارات کی کٹنگز رکھی ہوئی ہیں۔

اخباری تراشوں کو اب زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے کے بارے میں ماما رمضان فکرمند ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت جو میرے پاس فائلز موجود ہیں وہ گٹھریوں کی صورت میں پڑی ہیں اور 30، 40 فائلیں شاپنگ بیگز میں پیک کرکے رکھی ہیں۔‘

ان اخباری صفحات کو دیمک بہت جلدی کاٹ کر ختم کر دیتا ہے۔ ’اس لیے انہیں محفوظ کرنے کے لیے ایک لائبریری ہونی چاہیے، میں نے اس سلسلے میں کافی لوگوں کو درخواست بھی کی ہے لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہو سکا ہے۔ میری پھر بھی سبھی دوستوں سے اپیل ہے کہ لائبریری بنا کر کسی نہ کسی طریقے سے ان فائلوں کو محفوظ کیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا