اگر ہم پکڑے جاتے تو شاعر کے بجائے چور ہوتے

اگر اُس دن کالج میں کھڑی نئی سائیکل چوری کرنے کے خیال پر عمل کر گزرتا تو ۔۔۔

1997کا زمانہ تھا۔ ایف اے پاس کیے چار برس ہو چکے تھے اور اتنے ہی برس مزدوری کرتے ہوئے۔

میں مسجدوں کے گنبد بناتا تھا اور اُن دنوں ایک گاؤں میں مسجد کے گنبد بنانے کا کام کر رہا تھا۔ وہاں ایک مولوی قسم کا پی ٹی سی سکول ٹیچر روز مجھ پر اپنی علمی دھاک بٹھانے آتا اور عجیب وغریب جہالت زدہ سوالات سے دق کرتا۔

وہ سکول ٹیچر اُس مسجد کا مولوی بھی تھا، اِس لیے سوال علم کی بجائے تبلیغِ مذہب سے متعلق ہوتے یعنی سکول ٹیچر کم اور نیم مُلا زیادہ تھا۔

فرماتا ’مسجد میں کام کرتے ہو اور نماز نہیں پڑھتے، اللہ کے گھر سے پیسے کماتے ہو مگر اللہ کی بندگی سے گھبراتے ہو؟‘

مجھے نماز پڑھنے سے عار نہیں تھی اور انفرادی طور پر پڑھتا بھی تھا مگر اس کے پیچھے نہیں پڑھ سکتا تھا کیونکہ اس کی تمام عادات سے بخوبی واقف تھا۔

میرا معمول تھا کام کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی کتاب ضرور پاس رکھتا۔ ذرا تھوڑی سی فرصت دم لینے کو یا دوپہر کے کھانے کے وقت ملتی تو کتاب پر نظر مار لیتا۔

اُن دِنوں میرے زیرِ مطالعہ محمد رفیع سودا کی کلیات تھی اور وہ سکول ٹیچر یا مولوی صاحب (آپ اسے جو مرضی سمجھ لیں) ہر قسم کی شاعری کو شرک خیال کرتا تھا اور مجھ سے مسجد کا کام کرانا گناہِ کبیرہ سمجھتا مگر کام سے روک اِس لیے نہ سکتا تھا کہ باقی گاؤں والے میرے کام کو بہت پسند کرتے تھے۔

ایک دن اُس سکول ٹیچر پر مجھے اس کی کسی جہالت کے سبب بہت غصہ آ گیا۔

مَیں نے کہا، ’یہ کتاب پڑی ہے، کہیں سے بھی کھول کر ایک غزل یا قصیدہ پڑھ کے سنا دو۔ ایک ہفتے کی مزدوری آپ کو دوں گا۔ اگر نہ سُنا سکو تو اتنے ہی پیسے مجھے دے دینا۔‘

وہاں جتنے لوگ موجود کھڑے تھے سب نے اِس بات پر صاد کیا اور شرط بندھ گئی۔ اس نے کتاب کھول کرپڑھنے کی کوشش کی مگر نہ پڑھ سکا۔ ایک تو خط نسخ میں تھا، دوم مرزا سودا کی تراکیب اور فارسی مزاج لفظیات نے سکول ٹیچر کی بولتی ٹھپ کر دی اور بصد کوشش کے باوجود وہ مرزا سودا کا لامیہ قصیدہ نہ پڑھ سکا اور شرط ہار گیا۔

تب فی یوم کی مزدوری تین سو روپے ہوتی تھی، مَیں دو ہزار کی شرط جیت گیا اور جو کچھ لوگ حاضرین میں سے وہاں کھڑے تھے اُنھوں نے اُسی وقت مجھے دو ہزار دلوا دیے۔

اب مسئلہ پیدا ہو گیا کہ اتنے سارے پیسوں کا کیا کروں؟ گھر میں آ کر والد صاحب کو خبر دی۔ اُنھوں نے مشورہ دیا کہ اِن پیسوں سے فوراً بی اے کا داخلہ بھیج دو۔

مَیں نے مختلف یونیورسٹیوں سے امتحانی داخلے کی تاریخوں کا پتہ چلایا تو خبر لگی کہ فی الحال زکریا یونیورسٹی کی طرف سے داخلہ وصول کیا جا رہا ہے اور تین ماہ بعد امتحان ہو گا۔ تب داخلہ فیس اٹھارہ سو روپے کے لگ بھگ تھی۔ اُس وقت تک بی اے پاس کی کچھ قدر باقی تھی۔ خاص کر زکریا یونیورسٹی اُن دِنوں اچھی یونیورسٹی گنی جاتی تھی۔

میرے لیے صرف انگریزی کا مسئلہ تھا باقی مضامین تو ساری زندگی سے پڑھ رہا تھا۔ مَیں نے داخلہ بھیج کر انگریزی کی کتابیں خرید لیں۔ باقی کتابیں اورمضامین اللہ پر چھوڑے۔ سارا دن مزدوری پر جاتا، رات کو آ کر انگریزی کہانیاں اور شاعری پڑھتا۔

اللہ بھلا کرے آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری کا۔ آدھی رات تک اُسی کے بیچ میں سرکھپاتا بالآخر ایک دن ڈیٹ شیٹ آ گئی۔ ساہیوال پوسٹ گریجویٹ کالج امتحانی مرکز تھا۔ امتحان ذرا اور قریب آئے تو عشرہ بھر کو مزدوری چھوڑ دی۔

اُن دِنوں مزدوری چھوڑنے کا مطلب یہی تھا کہ اب کھانا پینا بھی چھوڑ دو اور یہ صرف میری نہیں ہر مزدور کی مجبوری ہے کیونکہ کسی مزدور کا ہفتہ بھر کام نہ کرنا خودکشی کے برابر ہے۔ البتہ میرے والد صاحب کے سبب مجھے اپنے بھائی بہنوں سمیت کھانا تو مل ہی جاتا تھا لیکن امتحانات کے اخراجات کی عیاشیاں یعنی آنے جانے کا روزانہ کا کرایہ اور ہوٹلوں سے کھانا کھانے کے معاملات پر عمل کرنا تو ایک طرف، سوچنا ہی معیوب تھا۔

اِدھر مجھے اوکاڑہ کے گاؤں 32 ٹو ایل سے جا کر وہاں پیپر دینے تھے۔ پیسہ روپیہ نامی چیز میری جیب میں کچھ نہیں تھا، فقط پچاس روپے کہیں سے اینٹھے تھے۔ میں نے سوچا اب روز یہاں سے گھر جانا پھر وہاں سے صبح آٹھ بجے کالج پہنچ کر پیپر دینا ناممکن ہے، اُس پر ستم یہ کہ کرایہ بھی جیب میں نہیں، تو کیوں نہ رات کالج میں ہی رُک جایا کروں۔

ساہیوال میں کوئی دوست تو الگ رہا، شناسا تک نہ تھا۔ پیپر دینے کے بعد مَیں نے یہ کیا کہ کالج کے گراؤنڈوں میں پھرتا رہا اور اگلے دن کے پیپر کی تیاری کرتا رہا۔

یہ کالج بہت بڑا، نہایت خوبصورت ہے اور اِس میں جا بجا جامنوں، امرودوں اور لوکاٹوں اور آموں کے پیڑ بھی ہیں۔ جامن کے درخت سب سے زیادہ تھے اور بہت بلند و بالا اور وہ موسم بھی جامنوں کے پھل کا تھا۔

جامن بہت پکے ہوئے اور سیاہ فام قسم کے رسیلے بہت موٹے تازہ تھے۔ اِس نسل کو ہم پنجابی میں را جامن کہتے ہیں۔ میں نے کافی سارے را جامن کھائے، پھر پانی پیا اور پیٹ بھر لیا۔ جیب میں موجود 50 روپے فی الحال میں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اِس کالج کے ایک پہلو میں ننگل انبیا ہائی سکول بھی ہے۔ وہاں بہت خوبصورت گراؤنڈ، درخت اور پھولوں کے باغیچے ہیں۔ کچھ دیر اُن باغیچوں میں سیرِ کا لطف اٹھایا۔

باغیچوں میں انار کے بہت پودے تھے۔ انار ابھی کچے تھے لیکن مَیں نے اُن کی نوخیزی کے ساتھ بھی کچھ رعایت نہ کی اور کچے انار ہی کھا کھا کر جامنوں کی مٹھاس کو کھٹاس میں بدلا اور واپس کالج چلا آیا۔

پھر شام ہوئی اور پھر رات۔ پرندوں سے لے کر انسانوں تک سب اپنے گھر، گھونسلوں میں جا دُبکے تھے۔ مَیں نے رات کو سونے کا مسئلہ یوں حل کیا کہ اکیڈیمک بلاک کے پچھواڑے کے برآمدوں میں چوڑے چوڑے ڈیسک پڑے تھے، وہیں سر کے نیچے کتابیں رکھیں اور پڑ رہا۔ پنکھا ونکھا وہاں نہیں تھا اور مچھر ایسا کہ اللہ کی پناہ۔ ہر مچھر پاؤ بھر کا تھا اور ڈنگ ایسے مارتا کہ بچھو بچارے کی کیا اوقات؟ یہ مچھر لاہور یا گوجرانوالہ میں ہوتا تو اِس کی سب اکڑ نکل جاتی۔ بٹیروں کی جگہ روسٹ کیا جاتا۔

خیر مَیں جیسے تیسے وہیں لیٹ رہا اور صبح کی اُمید پر آنکھیں موند لیں لیکن نیند کی پریاں مچھروں کے ڈر سے لوری دینے نہ آئیں۔ یہاں کوئی آدم نہ آدم زاد۔ ہوا دم سادھے چُپ تھی۔ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ اُسی برامدے کے ایک کونے میں ایک نئی نکور سائیکل پڑی ہے۔ حیران ہوا کہ اِس ویران خاموشی میں اکیلی سائیکل رکھ جانا کسی باولے کا کام ہے۔

قریب جا کر دیکھا تو اُس کو تالا بھی نہ لگا تھا اور اُسی ماڈل کی تھی جس کا تصور پطرس بخاری کرتا مر گیا مگر اُسے میسر نہ آ سکی۔ سوچا کسی گدھے قسم کے چوکیدار کی ہو گی، ابھی لے جائے گا مگر وہ ساری رات وہیں پڑی رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر رات کے پچھلے پہر نیند آ ہی گئی۔ اللہ جانے کس وقت اذانیں ہوئیں، کس وقت لوگوں نے فجر کی نمازیں ادا کیں۔ مجھے تو کچھ خبر نہ ہوئی۔

جب اُٹھا تو سورج کی روشنی برآمدے میں کھڑی نہاتی تھی۔ مَیں بھی اُٹھا ،دیکھا تو سائیکل وہیں کھڑی ہے۔

خیر مجھے کیا، اُسے نظر انداز کر کے باغیچے کے نل سے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے اُڑائے، اپنے منہ اور سر پر چھڑکاؤ کیا، تب ہوا کے نرم جھونکوں میں مکرر جامن کھائے، پانی پیا اور اگلا پیپر دینے نکل گیا۔

دوپہر کو پھر جامن کھائے مگر بھوک نہ مٹتی تھی اور روٹی کی طلب شدید ہونے لگی اور جامنوں سے دل اوبنے لگا۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ یہ پچاس گنوا دیتا تو کرایہ کہاں سے لیتا۔ دوبارہ ننگل انبیا سکول میں داخل ہوا، اناروں کی شامت لایا۔

وہاں کچھ کچی اور گدرائی ہوئی آلو بخارہ قسم کی لیچیاں بھی مل گئیں۔ وہ کھانے میں دل بہلایا اور واپس کالج کے میدانوں میں آیا۔ کچھ گراؤنڈوں میں لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے، کچھ میں باسکٹ بال اور کچھ میں بیڈ منٹن چل رہی تھی۔

مَیں اپنی کتاب پڑھتا ہوا کبھی ایک طرف کے کھیل کا مزا لیتا کبھی دوسرے کا۔ یوں دل سے روٹی کی بھوک کا خیال جاتا رہا۔

اِسی حالت میں یہ شام بھی ہو گئی۔ اب جو اپنے برآمدے میں آرام فرمانے گیا تو سائیکل وہیں تھی۔ مَیں نے ایک نظر آگے بڑھ کر اُسے دیکھا تو پتہ چلا کہ وہاں سے اُسے کسی نے ہلایا تک نہیں تھا۔ مَیں نے سوچا، کوئی رکھ کے بھول گیا ہے، چلو جس کی ہو گی آن کر لے جائے گا۔

وہ رات بھی پچھلی رات کی طرح انتہائی اضطراب میں کاٹی اور اگلے دن صبح ہوتے جیسے ہی گراؤنڈ میں پہنچا جامن میرے سامنے پڑے منہ چڑا رہے تھے مگر جی اُن کے کھانے کو نہ چاہتا تھا پھر آپ ہی بتایے کیا کرتا؟

بھوک سے جسم میں تاب نہ رہی۔ فوراً کالج چوک کے پہلو میں فرید ٹاؤن گیا۔ اُس کی نُکڑ پر ایک ہوٹل تھا وہاں سے 20 روپے کا ناشتہ کیا اور واپس آ کر کچھ جامنوں سے پیٹ بھرا اور مکرر پیپر میں آ بیٹھا۔

جب واپس اُسی برآمدے میں گیا تو سائیکل وہیں تھی۔ ایک دفعہ جی للچایا کہ بے وارثی سائیکل کو نکالوں اور مکمل خرچہ بناؤں مگر یہ بس ایک خیال ہی تھا، عمل ہم سے ہو نہیں سکتا تھا اور نہ کیا۔ مگر حیرت تھی کہ سائیکل یہاں کون گدھا پھینک گیا تھا۔

تیسرے دن تو ہمارے ہوش و حواس کی تمام گنگا خشک ہو گئی۔ صبح اُٹھ کے نہ سائیکل کی طرف دھیان دیا نہ دوسری کوئی بات سوجھی۔ آنکھوں میں اندھیرا ناچنے لگا تھا۔

جامن کھا کھا کے معدہ پتھر ہو چکا تھا اور جامنوں سے ایسی نفرت ہوئی کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو آرا پکڑ کر تمام جامن جڑوں سے کاٹ پھینکتا۔ دماغ تھا کہ سب ماؤف ہو چکا تھا۔ اِدھر پیپر دو رہتے تھے لیکن وہ اِس عالم میں ہوتے نظر نہیں آ رہے تھے۔

سوچا آج چل کر جو تیس روپے بچے ہیں پہلے اُن کا کھانا کھاتا ہوں پھر پیپر دوں گا اوراُس کے بعد جو ہو گی باقی دیکھا جائے گا۔ زندہ رہا تو اگلا پیپر بھی ہو ہی جائے گا اور گھر بھی پہنچ جاؤں گا۔

تیس روپے میں کیا آنا تھا۔ میں نے ایک دال اور دو روٹیوں کا آرڈر دیا، جس کے اتنے ہی پیسے بننے تھے مگر بیرا گوشت روٹی لے آیا۔

مَیں نے ایک آنکھ ویٹر کو دیکھا اور بولا ’بھائی، بھوک سے سر میرا گھوما ہوا ہے اور پاگلوں سی حرکتیں تم کر رہے ہو۔ تجھے دال کہا اور تُو بکرے کا گوشت لے آیا ہے؟‘

اُس نے کہا، ’آپ کھا لیجیے پیسے ہو چکے ہیں۔‘ میں نے کہا، ’کس نے دیے پیسے؟‘

اُس نے کونے میں بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ دیکھا تو بالکل انجان آدمی تھا۔ نہ دوست، نہ واقف کار۔ مَیں اُٹھ کر اُس کے پاس گیا اور کہا ’اے بھائی جو کچھ آپ سمجھے بیٹھے ہو مَیں ویسا لڑکا نہیں ہوں،آپ کو مجھے کھانا کھلانے سے کچھ نہیں ملے گا۔‘

وہ بولا ’لڑکے، تم میرے بیٹے کی طرح ہو، بے فکر ہو کر کھانا کھاؤ، بعد میں بتاتا ہوں‘۔

جب میں کھانا کھا چکا تو اُس نے کہا ’بات یہ ہے کہ مَیں اِس کالج میں اکاؤنٹنٹ ہوں اور کالج میں موجود بورڈنگ میں رہتا ہوں۔ پچھلے دو مہینے میں میری دو سائیکلیں چوری ہوئی ہیں اور یہیں سے ہوئیں جہاں تم رات سوتے ہو۔ تیسری سائیکل بالکل نئی لے کر مَیں نے یہاں رکھی تھی اور پچھلے تین دن سے اُس کی خفیہ نگرانی کر رہا ہوں، مجھے تم پر شُبہ تھا مگر آج سحر کے وقت چور پکڑا گیا۔ اِدھر آج صبح کچھ لڑکوں نے بتایا کہ تم یہاں پیپر دے رہے ہو اور تین دن سے جامنوں پر کیسے گزارا کر رہے ہو۔ آج پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک آگیا اور تمہیں کھانا کھلا دیا۔‘

اُس کی بات سُن کر میں تو کانپ کر رہ گیا اور خدا کا شکر کیا کہ سائیکل کا لالچ نہ کیا۔

اگلے دن پیپر دیے اور گھر چلا آیا۔ وہ سائیکل والا احمد علی اب میرا دوست ہے اور بڈھا ہو چکا ہے، اللہ اُسے صحت دے، جانے کس وقت اللہ کو پیارا ہو جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین