پاکستان بھارت کشیدگی افطار تقاریب تک بھی پہنچ گئی

دہلی میں سکیورٹی اہلکاروں نے پاکستانی سفارت خانے کے افطار ڈنر میں مہمانوں کو شرکت سے روکا، تو اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے افطار ڈنر میں بھی یہی ہوا۔

پاکستان میں بھارتی بائی کمیشنر اجے بساریہ (انڈپینڈنٹ اردو)

بھارتی ہائی کمیشن کے زیراہتمام گذشتہ روز افطار ڈنر تقریب میں پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مہمانوں کو شرکت سے روکنے پر احتجاج کرتے ہوئے بھارتی ہائی کمیشن نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ سفیروں اور دیگر مہمانوں کو روکا جانا سفارتی آداب کے خلاف ہے اور حکومت پاکستان کو سفارتی تقاریب کا تخفظ یقینی بنانا چاہیے۔

یکم جون کو پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا جس میں صحافی، بیوروکریٹس، ریٹائرڈ فوجی افسران، ریٹائرڈ سفیروں، سفارتی حلقہ اور مختلف شعبوں سے مہمانوں کو دعوت دی گئی۔ لیکن تقریب میں شریک کچھ مہمانوں کے مطابق، سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کئی مہمانوں کو  کو شرکت سے روک دیا گیا۔

اس سے قبل ایسا رویہ بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کی تقاریب میں بھارتی اداروں کی طرف سے دیکھا گیا تھا۔

پلوامہ حملے کے بعد فروری سے جاری دونوں ملکوں میں کشیدگی کافی حد تک کم ہوئی ہے، لیکن سفارتی حلقوں میں  اب بھی سفارتی آداب کی خلاف واقعات  جاری ہیں، جن میں ایک دوسرے کی جانب سے ہائی کمیشن کی تقاریب میں خلل پیدا کرنا شامل ہیں۔

بھارتی ہائی کمیشن کا افطار ڈنر

صحافی باقر سجاد کے مطابق، یکم جون کو بھارتی ہائی کمیشن کے افطار ڈنر میں جن مہمانوں کو روکا گیا ان میں ایک سابق ڈی جی آئی ایس پی آر بھی شامل تھے جنہیں نہ صرف شرکت سے روکا گیا بلکہ انہیں دروازے سے واپس لوٹنا پڑا۔

باقر کے مطابق، جب سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس دعوت میں شرکت کے لیے آئے تو  ہوٹل کے باہر تعینات ایک حکومتی سیکیورٹی اہلکار نے انہیں کہا: ’سوری سر، آپ سابقہ فوجی افسر ضرور ہیں اور ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن آپ افطار ڈنر پر نہیں جا سکتے۔ ہمیں اوپر سے آرڈرز ہیں۔‘

کچھ دیر تکرار اور بحث کے بعد اطہر عباس ہوٹل کے دروازے سے ہی واپس لوٹ گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بات کی تصدیق کی کہ  جب وہ نجی ہوٹل پہنچے تو سیکیورٹی اہلکاروں نے ان سے کہا کہ وہ شرکت نہیں کر سکتے اس لیے وہ واپس ہو لیے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کو بھارتی ہائی کمیشنر کی جانب سے افطار ڈنر کا دعوت نامہ ملا تھا لیکن ان کو کہیں سے ایسا کوئی پیغام موصول نہیں ہوا جس میں بتایا گیا ہو کہ انہیں افطار ڈنر میں نہیں جانا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر تنقید

سفارتی سرگرمیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی وہ بھارتی ہائی کمیشن کی دعوت پر جاتے رہے ہیں اور معمول کے مطابق باہر کھڑے سادہ لباس کے اہلکار نام پوچھ لیتے ہیں، لیکن ان کو کبھی نہیں روکا گیا۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مکمل طور پر شرکت سے روکا گیا ہو بلکہ مہمانوں کے ساتھ سخت رویہ بھی رکھا گیا ہو۔

اہلکاروں کی  طرف سے ایسے رویے پر صحافی مہرین زہرہ ملک نے ٹوئٹرپرکہا کہ ان کے ڈرائیور کو سیکیورٹی اہلکاروں نے ہراساں کیا۔ جبکہ صحافی انس ملک نے ٹویٹ میں کہا کہ افطار ڈنر میں شرکت بہت مشکل سے ہوئی اور یہ پاکستان کا ردعمل ہے  اس کے جواب میں جو بھارت نے پاکستانی ہائی کمیشن کے افطار ڈنر کے ساتھ کیا

 

 

پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر کے مطابق ان کو بھی پہلے گیٹ پر روکا گیا لیکن وہ کسی طرح اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف سفارت خانوں کے سفیر موجود تھے لیکن پاکستانی مہمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ’سرحد کے دونوں جانب ایسی حرکت ہونا قابل افسوس ہے۔‘

پاکستان ہائی کمیشن دہلی میں کیا ہوا؟

انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستانی ہائی کمیشن دہلی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے ہر سال افطار ڈنر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سال پاک بھارت کشیدگی کے باعث بھارتی سیکیورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں نے 28 مئی کو افطار میں شرکت کرنے والے مہمانوں کو ’نہ صرف روکا بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا۔‘

پاکستانی ہائی کمیشن دہلی کے مطابق، اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔

سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی ہائی کمیشن نے 73 مہمانوں کے دعوت نامہ بھیجا لیکن سیکیورٹی اہلکاروں کی وجہ سے صرف 25 مہمان شرکت کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب ایسا پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ فروری میں پاکستان بھارت جنگی ماحول کے بعد  یوم پاکستان کے موقع پر بھی پاکستان ہائی کمیشن دہلی میں ہونے والی تقریب میں بھارتی انٹیلیجنس اہلکاروں کی جانب سے مہمانوں کو ہراساں کیا گیا تھا اور انہیں شرکت سے منع کیا گیا تھا۔اس معاملے پر بھارتی صحافیوں نے بھی سوشل میڈیا پر بھارت کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے ٹویٹس بھی کیں اور ویڈیوز بھی لگائیں تھیں۔ 

 

ادلے کا بدلہ؟

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پاکستانی سفارتی  ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان نے جو کیا ہے وہ بھارت کے رویے کے ردعمل میں کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ روز بھارت کے افطار ڈنر پر ہوٹل کے دروازے پر بھارتی سفارتی اہلکار پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی ویڈیوز بنا رہے تھے جو کہ ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان یہ معاملہ سفارتی سطح پر اٹھائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست