افغانستان پر کانفرنس: بھارت اور روس کے اعلامیوں میں فرق

دہلی اعلامیے میں خطے میں بنیاد پرستی، انتہا پسندی، علیحدگی پسندی اور منشیات کی سمگلنگ کے خلاف ’اجتماعی تعاون‘ پر زور دیا گیا ہے، لیکن روسی بیان میں ان مسائل پر ’اجتماعی تعاون‘ کا کوئی ذکر ہی نہیں۔

افغانستان کے بارے میں  نئی دہلی میں ہونے والی کانفرنس میں ایران، قازقستان، قرغیزستان، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شریک ہوئے ہیں ( تصویر:   بھارتی وزارت خارجہ ٹوئٹر اکاؤنٹ)

بھارت کے شہر نئی دہلی میں افغانستان کی صورت حال پر قومی سلامتی کے مشیروں کے مابین جاری مذاکرات کے دوران ’دہلی ڈیکلریشن‘ (دہلی اعلامیہ) سامنے آیا ہے، جس کے بعد روس نے بھی اپنا بیان جاری کیا جو بھارتی اعلامیے سے مکمل مطابقت نہیں رکھتا۔

بھارت میں 10 سے 11 نومبر کو ’افغانستان پر دہلی علاقائی سلامتی مذاکرات‘ کا دور جاری ہے، جس میں شرکت سے پاکستان اور چین پہلے ہی معذرت کر چکے ہیں۔

بھارتی ویب سائٹ انڈین ایکسپریس کے مطابق بھارتی اور روسی بیانات میں دہلی اعلامیے سے متعلق پانچ مقامات میں فرق دیکھنے میں آیا ہے۔

بھارت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق: ’دہلی اعلامیے میں دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی اور دہشت گردی کی مالی معاونت، دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے اور بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے سمیت اس کی تمام شکلوں اور توضیحات سے نمٹنے کے لیے اپنے پختہ عزم کا اعادہ کیا گیا، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عالمی دہشت گردی کے لیے افغانستان کبھی بھی محفوظ پناہ گاہ نہیں بنے گا۔‘

دوسری جانب روس کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں آخری الفاظ شامل نہیں ہیں، جو یہ ہیں: ’تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عالمی دہشت گردی کے لیے افغانستان کبھی بھی محفوظ پناہ گاہ نہیں بنے گا۔‘

دہلی اعلامیے میں اس بات کی اہمیت پر زور دیا گیا کہ خواتین، بچوں اور اقلیتی برادریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اگرچہ روسی بیان میں اس کی تائید تو کی گئی مگر کہیں حقوق کو ’بنیادی‘ کے الفاظ سے نہیں لکھا گیا، جبکہ ’خلاف ورزی‘ سے متعلق بھی کوئی بات موجود نہیں۔

بھارتی اعلامیے میں خطے میں بنیاد پرستی، انتہا پسندی، علیحدگی پسندی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف ’اجتماعی تعاون‘ پر زور دیا گیا ہے، لیکن روسی بیان میں ان مسائل پر ’اجتماعی تعاون‘ کا کوئی ذکر ہی نہیں جو کہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔

ایک جگہ پر دونوں بیانات میں فرق دیکھنے میں آیا جب بھارتی اعلامیہ میں کہا گیا: ’افغانستان سے متعلق اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کو ذہن نشین کرنا چاہیے،‘ اور یہ کہ اقوام متحدہ کا افغانستان میں ایک مرکزی کردار ہے اور ملک میں اس کی مسلسل موجودگی کو ’محفوظ‘ کیا جانا چاہیے۔

روسی بیان میں اس بات پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر موجود نہیں اور کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ افغانستان میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور ملک میں اقوام متحدہ کی مستقل موجودگی کو ’برقرار‘ رکھا جانا چاہیے۔

پانچواں فرق خاصا واضح ہے، جس میں دہلی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وہ آنے والا سمٹ 2022 میں منعقد کریں گے، جبکہ دوسری جانب روسی بیان میں کسی ٹائم فریم کا عہد نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان کے بارے میں دہلی میں ہونے والی کانفرنس میں ایران، قازقستان، قرغیزستان، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شریک ہوئے ہیں۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد کی گئی ہے، جب پاکستان جمعرات کو اسلام آباد میں روس، چین، امریکہ اور طالبان کے ساتھ ٹرائیکا پلس کا اجلاس منعقد کر رہا ہے۔

بھارت کی جانب سے دہلی میں سمٹ میں طالبان یا افغانستان کی نمائندگی کے لیے کوئی موجود نہیں جبکہ گذشتہ روز طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی سربراہی میں ایک افغان وفد پاکستان کے تین روزہ دورے پر پہنچا ہے۔

پاکستان کا انکار، چین کی معذرت

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے تاکہ وہ افغانستان میں بھارت کے مبینہ منفی کردار کے خلاف احتجاج درج کروا سکیں۔ اس دعوت کو ٹھکراتے اور بھارت کو افغانستان میں ’امن بنانے والا‘ نہیں بلکہ ’بگاڑنے والا‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’میں نہیں جارہا۔ بگاڑنے والا امن قائم کرنے والا نہیں ہو سکتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’میں سمجھتا ہوں کہ خطے کی رکاوٹیں آپ کے سامنے ہیں، اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرف بھارت ہے۔۔ بدقسمتی سے (اس کی وجہ سے) وہاں حکومت کا طرز عمل اور نظریہ، میں نہیں دیکھ رہا کہ یہ (امن) عمل نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے لیے کس طرح آگے بڑھے گا۔‘

دوسری جانب پاکستان کے بعد چین نے بھی 10 نومبر کو افغانستان پر ہونے والے علاقائی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہمسایہ ملک کا کہنا تھا کہ وہ شیڈولنگ کی مشکلات کی وجہ سے شرکت کرنے سے قاصر ہے، لیکن بھارتی اخبارات کے مطابق دو طرفہ چینلز کے ذریعے بات چیت کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔

اس سے قبل اجلاس

اس فارمیٹ کے تحت اس سے قبل دو اجلاس ستمبر 2018 اور دسمبر 2019 میں ایران میں ہو چکے ہیں۔ کووڈ 19 وبا کی وجہ سے بھارت میں تیسرا اجلاس اب تک نہیں ہو سکا تھا۔

نئی دہلی اسے ’سکیورٹی‘  ڈائیلاگ قرار دے رہا ہے، ’سفارتی‘ ٹریک نہیں کیونکہ یہ ملاقات خارجہ پالیسی ڈائیلاگ نہیں ہے۔ وزرائے خارجہ کی قیادت میں افغانستان پر بہت سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ منفرد ہے کیونکہ علاقائی سٹیک ہولڈرز کے سکیورٹی سربراہ اس میں شریک ہو رہے ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس اجلاس میں شریک مختلف ممالک کے سکیورٹی سربراہان بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات بھی کریں گے۔

اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں افغانستان میں حالیہ پیش رفت سے پیدا ہونے والی خطے میں سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔

بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ متعلقہ سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے اقدامات پر غور کرے گا اور امن، سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے میں افغانستان کے عوام کی حمایت کرے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا