ایران جوہری ذخیرے میں مزید اضافہ کر رہا ہے: رپورٹ

اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے خبردار کیا ہے کہ ایران اپنے جوہری ذخیرے میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی 18 اکتوبر کو امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ سے امریکی دفتر خارجہ میں گفتگو کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے خبردار کیا ہے کہ ایران اپنے جوہری ذخیرے میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔

آئی اے ای اے نے بدھ کو اپنی خفیہ سہ ماہی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتہائی افزودہ شدہ یورینیم کے ذخیرے میں مزید اضافہ کیا ہے۔

رپورٹ میں ایجنسی نے رکن ممالک کو بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایران کے پاس یورینیم کا 17.7 کلوگرام کا ایسا ذخیرہ ہے جس کو 60 فیصد تک افزودہ کیا گیا ہے اور رواں سال اگست کے بعد اس میں تقریباً آٹھ کلو گرام کا اضافہ ہوا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق انتہائی افزودہ شدہ یورینیم کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی کوشش کی ہے۔

ویانا میں قائم ایجنسی نے رکن ممالک کو مزید بتایا کہ وہ ابھی تک ایران کے افزودہ یورینیم کے ٹھیک ٹھیک ذخیرے کی تصدیق نہیں کر پا رہی ہے کیونکہ تہران نے اس سال کے آغاز میں ہی اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔

آئی اے ای اے فروری کے بعد سے ایرانی جوہری تنصیبات، آن لائن افزودگی مانیٹر اور الیکٹرانک سیل کی نگرانی کی فوٹیج تک رسائی حاصل کرنے سے بھی قاصر ہے۔

ایجنسی کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی نے رواں ماہ ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ ’یہ صورت حال گہرے بادلوں میں اڑنے جیسی ہے جہاں کچھ بھی واضح دکھائی نہیں دیتا۔‘

توقع ہے کہ گروسی اسی مہینے ایرانی حکام کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے تہران جائیں گے تاکہ ایجنسی ملک میں ہونے والی درست معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں۔

دوسری جانب آئی اے ای اے نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کے کیمروں کا ایران کی جوہری سائٹ پر ہونے والے حملے میں کوئی کردار تھا۔

تہران نے کہا تھا کہ وہ اپنی جوہری تنصیبات پر ہونے والے حملے میں عالمی ادارے کے آلات کے کردار کے امکان پر تحقیقات کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عالمی ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ادارے کے ڈائریکٹر جنرل واضح طور پر اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ ایجنسی کے کیمروں نے ایران کے کاراج کمپلیکس پر حملہ کرنے میں کسی تیسرے فریق کی مدد کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حملے کے بعد ایران نے آئی اے ای اے کو بتایا ہے کہ ’اس کے سکیورٹی اور عدالتی حکام اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا دہشت گردوں نے ایجنسی کے کیمروں کو کمپلیکس پر حملہ کرنے کے لیے استعمال تو نہیں کیا تھا۔‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آئی اے ای اے کے سربراہ پیر کو ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے تہران پہنچ رہے ہیں۔

اس سے قبل ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی نے 12 نومبر کو ایرانی حکومت کے ساتھ رابطہ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’حیران کن‘ قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اگلے ہفتے ہونے والے اجلاس سے قبل ایرانی حکام سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں۔

ایران کی جوہری ایجنسی کے ترجمان نے بدھ کو فارس نیوز ایجنسی کو تصدیق کی کہ آئی اے ای اے کے سربراہ پیر (22 نومبر) کی شام کو تہران پہنچیں گے۔‘

ترجمان نے مزید کہا کہ گروسی منگل کو وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور ایران کی جوہری ایجنسی کے سربراہ محمد اسلمی سے ملاقات کریں گے۔

گروسی نے آخری بار تہران کا دورہ ستمبر میں تھا۔ اس وقت انہوں نے ایران کی جوہری تنصیبات پر نگرانی کے آلات تک رسائی کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا تھا۔

گروسی کا آئندہ ہفتے ایران کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب ویانا میں 29 نومبر کو تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع ہو رہے ہیں جو جون سے تعطل کا شکار تھے۔

اس بات چیت کا مقصد 2015 کے معاہدے کو بحال کرنا ہے جس میں تہران کو اس کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بدلے پابندیوں سے نجات کی پیشکش کی گئی تھی۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2018 میں امریکہ کو یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل لیا تھا۔

اس کے جواب میں ایران نے 2019 میں جوہری معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا تھا۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے منگل کو اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن ایک ٹیلی فونک گفتگو میں بتایا کہ ایران جوہری مذاکرات کے حوالے سے ’بالکل سنجیدہ‘ ہے۔

قبل ازیں ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ مغرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مذاکرات میں تہران پر ’ضرورت سے زیادہ مطالبات‘ کا بوجھ نہ ڈالے۔

ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں معاہدے کے باقی فریقین برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شرکت کریں گے جبکہ امریکہ بالواسطہ طور پر مذاکرات میں حصہ لے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا