امریکی کمپنیوں کو ہائپر سونک میزائل سے دفاع کے نظام بنانے کا ٹھیکہ

پینٹاگون نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ چین نے اگست میں ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا جس سے دفاع مشکل ہے۔

19 مارچ 2020 کو امریکی نیوی کی جانب سے جاری کردہ اس تصویر میں پیسیفک میزائل تنصیب سے لانچ ہونے والے ہائپر سونک میزائل کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی فائل)

پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکہ کو ہائپر سونک میزائل حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے دفاعی شعبے کی بڑی ملکی کمپنیوں ریتھیون، لاک ہیڈ مارٹن اورنارتھروپ گرمن کو میزائل بنانے کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔

روایتی بیلسٹک میزائلوں کی برعکس ہائپر سونک میزائل آواز سے پانچ گنا تیز رفتار کے ساتھ پرواز کر سکتے ہیں۔

ہائپر سونک میزائلوں کو بیلسٹک میزائلوں سے زیادہ بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ میزائل فضا میں کم بلندی پر پرواز کر سکتے ہیں۔ اس صلاحیت کی بدولت ان سے محفوظ رہنا نسبتاً زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔

جمعے کو پینٹاگون کا کہنا تھا کہ دفاعی شعبے کی کمپنیوں کو چھ کروڑ ڈالر سے زیادہ کے تین ٹھیکے دیے گئے ہیں۔

یہ کمپنیاں گلائیڈ فیز انٹرسیپٹرز (جی پی آئی) تیار کریں گی۔ امریکہ نے اکتوبر میں ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ چین اور روس پہلے اس ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر چکے ہیں۔

پینٹاگون نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ چین نے اگست میں ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا جس سے دفاع مشکل ہے۔

پینٹاگون کا کہنا تھا کہ چین اپنے ہتھیاروں میں توقع سے زیادہ رفتار کے ساتھ اضافہ کر رہا ہے۔

’دی انڈپینڈنٹ‘ کے مطابق ہائپرسونک میزائل کی رفتار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اسے آتا ہوا نہیں دیکھا جا سکتا۔

اس شعبے میں تسلیم شدہ برتری چین کو حاصل ہے۔ روس کے صدر پوتن نے بھی بارہا دعویٰ کیا ہے کہ ان کی مسلح افواج کے پاس اب ایسے ہائپر سونک میزائل ہیں جو جنگ شروع ہونے کے بعد ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں امریکی یا برطانوی طیارہ بردار بحری بیڑے کو تباہ کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہائپر سونک میزائل کے حملے میں ہدف بننے والے عملے کے پاس جوابی قدم اٹھانے کے لیے تقریباً سرے سے وقت ہو گا ہی نہیں۔

دوسری عالمی جنگ کی طرح دفاعی قوتوں کو حملے کے امکان سے خبردار رہنے اور اپنے دفاعی نظام کو ہر دم تیار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اتنے مختصر ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے ان کے پاس کوئی حقیقت پسندانہ موقع ہو۔

حتی کہ حتمی رسائی کے چند آخری لمحوں میں بھی حملہ آور میزائل پر ضرب موثر ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ایسا ہو بھی جائے تو اس کا ملبہ آگے گرتا رہے گا اور ہدف والے بحری جہاز میں داخل ہو جائے گا۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ