امریکہ کا ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی کے ’کامیاب‘ تجربے کا دعویٰ

عالمی فورم کانفرنس برائے تخفیف اسلحہ میں امریکہ کے مستقل نمائندے رابرٹ ووڈ نے گذشتہ ماہ ان رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا تھا جن میں کہا گیا ہے کہ چین نے اگست میں جوہری صلاحیت رکھنے والے ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔

18 مئی 2016 کی ہینڈ آؤٹ تصویر میں امریکی اور آسٹریلوی مشترکہ ری سرچ ٹیم کا ہائپر سونک ٹیکنالوجی والے میزائل کا تجربہ، جو آواز کی رفتار سے 7.5 گنا تیز ہے (اے ایف پی فائل، آسٹریلوی دفاع)

امریکی بحریہ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے کامیابی سے ہائپر سونک مزایل ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کیا ہے، ایک نیا ہتھیاروں کا سسٹم جو پہلے ہی چین اور روس کے زیر استعمال ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی بحریہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ہائپر سونک میزائل ٹیکنالوجی کا تجربہ بدھ کو ورجنیا میں ناسا کی فسیلیٹی میں ہوا جو ’بحریہ کے ڈیزائن کردہ عام ہائپرسونک میزائل کی ترقی میں اہم قدم ہے۔‘

بیان کے مطابق تجربے میں ’حقیقتی آپریٹنگ ماحول میں جدید ہائپرسونک ٹیکنالوجیز ، صلاحیتوں اور پروٹو ٹائپ سسٹم کا مظاہرہ کیا گیا۔‘

ہاہپرسانک میزائل عام بیلسٹک میزائل کی طرح ہوتے ہیں مگر آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز ہوتے ہیں۔ بیلسٹک میزائل کے برعکس انہیں زیادہ انہیں زیادہ لچک سے چلایا جا سکتا ہے اور فضا میں نچلی سطح پر چل سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ان سے دفاع کر پانا مشکل ہوجاتا ہے۔

عالمی فورم کانفرنس برائے تخفیف اسلحہ میں امریکہ کے مستقل نمائندے رابرٹ ووڈ نے گذشتہ ماہ ان رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا تھا جن میں کہا گیا ہے کہ چین نے اگست میں جوہری صلاحیت رکھنے والے ہائپرسانک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اخبار فنانشل ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق، چین نے ایک پائپرسانک میزائل کا تجربہ کیا جو زمین کا چکر لگا کر لینڈ ہوا مگر اپنا لینڈنگ کا ہدف مِس  کر گیا۔

ووڈ نے کہا: ’ہمیں ہائپر سانک محاذ پر چین کی سرگرمیوں پر شدید تشویش ہے۔‘

چین نے اصرار کیا ہے کہ تجربہ عام کھلائی جہاز کا تھا نہ کہ میزائل کا۔

ووڈ نے کہا کہ روس کے پاس بھی ہائپرسانک ٹیکنالوجی ہے اور اگرچہ امریکہ اس فیلڈ میں فوجی صلاحیت بنانے سے باز رہا ہے مگر اب  اس کے پاس جواب دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔

انہوں نے کہا: ’اگر آپ ایسے ملک ہیں جو اس (ٹیکنالوجی) کا ہدف ہے، تو آپ چاہیں گے کہ خود کا دفاع کرنے کا طریقہ ڈھونڈیں۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہائپرسونک ٹیکنالوجی کو دفاعی اور دوسرے مقاصد کے لیے کیسے استعمال کیا جائے۔‘

چین نے 2019 میں ایک میڈیم رینج کے ہائپر سونک میزایل کی نمائش کی تھی۔ ڈی ایف 17 دو ہزار کلومیٹر تک وار کر سکتا ہے اور  جوہری مواد بھی لے جا سکتا ہے۔

فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں جس میزائل کا ذکر ہے اور اس سے مختلف ہے اور اس کی رینج بھی زیادہ ہے۔ اسے مدار میں لانچ کیا جا سکتا ہے اور پھر یہ فضا میں واپس آ کر ہدف سے ٹکرا سکتا ہے۔

روس نے بھی حال ہی میں آب دوز سے ہائپر سانک میزائل، زرکون، لانچ کیا۔ 2019 سے اس کے پاس جوہری صلاحیت والے آوین گارڈ میزائل بھی ہیں، جو آواز کی رفتار سے 27 گنا تیز ہیں اور اونچائی اور راستہ بدل سکتا ہے۔

پینٹاگون 2025 تک اپنے پہلے ہائپرسانگ ہھتیار  چلانے کے لیے پرامید ہے اور کہہ چکا ہے کہ انہیں بنانا اس کی ’اولین ترجیح‘ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ