’کم عمر ہندو لڑکی سے شادی‘: چائلڈ ایکٹ کے تحت پہلا مقدمہ درج

سندھ کے شہر اوڈیرو لال کی پولیس نے کم عمر ہندو لڑکی سے شادی کرنے والے شخص کے خلاف کیس داخل کر کے اسے گرفتار کرلیا ہے۔

سندھ کے شہر اوڈیرو لال کی پولیس نے کم عمر ہندو لڑکی سے شادی کرنے والے شخص کے خلاف کیس داخل کر کے اسے گرفتار کرلیا ہے۔

پولیس کے مطابق اڈیرو لال شہر کے کچھ فاصلے پر رہنے والے ہندوں کے کچھی کولھی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے رئشی کولھی نے درخواست دی کہ آٹھویں جماعت کی طالبہ ان کی 14 سالہ بیٹی انیتا کولھی کو کچھ دن پہلے ان کے پڑوس میں رہنے والے 23 سالہ حبیب اللہ باریجو نے اغوا کرکے زبردستی تبدیلی مذہب کے بعد ان سے شادی کرلی ہے۔

جس کے بعد اوڈیرو لال پولیس نے ایف آئی آر نمبر 33/2019 کے تحت حبیب اللہ باریجو کے خلاف کم عمر لڑکی سے شادی کرنے کے جرم میں مقدمہ درج کرلیا ہے جبکہ سات دیگر افراد کو بھی ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے۔

ایس ایس پی مٹیاری آصف بوگھیو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’والد کی طرف سے لڑکی کی کم عمری کا سرٹیفکیٹ لانے کے بعد ہم نے یہ کیس چائلڈ میریجز ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے شق 3 اور 4 کے تحت درج کرکے لڑکی کو بازیاب کرلیا ہے جبکہ شادی کا دعویٰ کرنے والے 23 سالہ حبیب اللہ باریجو کو گرفتار کرلیا ہے۔  لڑکی کو دارالامان حیدرآباد بھیج دیا ہے۔ جبکہ لڑکے کی جانب سے نکاح نامہ جمع کرانے پر اب ہم نکاح خواں مولوی کا نام بھی ایف آئی آر میں شامل کریں گے۔'

انھوں نے مزید بتایا کہ اس قانون کی سزا تین سال قید ہے مگر اگر عدالت معاف بھی کر دے تو کم سے کم دو سال قید کی سزا بھگتنی ہوگی۔

اوڈیرو لال کراچی سے دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر مٹیاری ضلع کا شہر ہے۔

سندھ میں چائلڈ میریجز ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے تحت کسی کم عمر ہندو لڑکی سے شادی کے خلاف یہ پہلا کیس ہے۔  

ہندو مذہب کو ماننے والوں  پر کام کرنے والے کارکن اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سندھ میں مبینہ اغوا  کرکے زبردستی تبدیلی مذہب کے بعد کم عمر ہندو لڑکیوں سے شادی کرلی جاتی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن مکیش کمار مینگھواڑ نے بتایا کہ ’مگر ان کیسوں میں صرف اغوا کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے مگر بعد میں لڑکی ڈر کے باعث عدالت میں بیان دے دیتی ہے کہ انھوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے، جس کے بعد عدالت ان کم عمر لڑکیوں کو والدین کے بجائے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔‘

قومی عوامی تحریک کے صدر اور وکیل ایاز لطیف پلیجو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سے پہلے چائلڈ میریجز ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے تحت کم عمر مسلمان لڑکیوں سے شادی کرنے والوں کے خلاف کئی کیس داخل ہوئے ہیں مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی کم عمر ہندو لڑکی سے شادی کرنے والے کے خلاف کیس داخل ہوا ہے۔

’یہ ایک تاریخی کیس ہے جس سے نہ صرف سندھ بلکہ دیگر صوبوں میں بھی کم عمر لڑکی سے شادی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘

سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں انیتا کولھی نے دعویٰ کیا کہ ان کی عمر 19 سال ہے اور وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے حبیب اللہ سے شادی کی ہے۔ جبکہ رئشی کولھی نے کہا کہ ان کی بیٹی کی عمر صرف 14 سال ہے جس کا ثبوت وہ پولیس کو دے چکے ہیں اور ان کی بیٹی کو اغوا کرکے ورغلایا گیا۔

کولھی نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ’مگر پولیس نے بڑا تعاون کیا ہے اور ایف آئی آر کے اندراج کے بعد مجھے امید ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان