وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کل ایک امریکی سکالر کو انٹرویو دیتے ہوئے قوم کی رہنمائی کی۔ انہوں نے فرمایا کہ پاکستان میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے، اس انقلاب کی مثال انہوں نے فرانس، برطانیہ، روس کے انقلابوں سے نہیں دی بلکہ اس کائنات کی سب سے عظیم شخصیت پیغمبر اسلام کی ریاست مدینہ کے حوالے سے بیان کی۔
پاکستان ٹیلی وژن پر چلنے والے اس انٹرویو، جس کو دوسرے تمام چینلز نے بھی نشر کیا، کا سرکاری ترجمہ کچھ یوں لکھا گیا۔ ’اور بنیادی طور پر یہ ہوا کہ جب پیغمبر ﷺ نے مدینہ کی ریاست قائم کی تو انہوں نے ان لوگوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جن کی پہلے کوئی حیثیت نہیں تھی، اس کے بعد وہ سب عالمی سطح کے رہنما بن گئے۔‘
اس کے بعد وزیراعظم نے ایک آسمان کو چھوتا ہوا دعویٰ کیا۔ انہوں نے فرمایا: ’میرا ماننا ہے کہ پاکستان بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے۔‘ یعنی عملاً وہ یہ فرما رہے ہیں کہ ان کے تین سالہ دور میں ایک نئی ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو ایسے نکتے پر لا کھڑا کیا ہے جس کے بعد نتائج ویسے ہی ہوں گے جیسے ان مقدس مثالوں میں جن کا وہ روانی سے تذکرہ کرتے رہتے ہیں ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
یقیناً قوم اس بیان کے باعث حیرانی اور تسلی جیسی کیفیات میں سے گزرے گی۔ تسلی اس بات کی کہ ملک کا وزیراعظم جب یہ دعویٰ کر رہا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کر رہا ہو گا۔ اسے ریاست کے تمام فیصلہ سازوں کی حمایت حاصل ہے۔ تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کو بغیر تعطل کے معلومات فراہم کرتی ہیں۔ وہ اپنی جماعت کے نمائندگان سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔
پچھلے چند ہفتوں میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ انہوں نے طویل نشستیں کیں۔ ذرائع ابلاغ کے مخصوص نمائندے ان کے ساتھ براہ راست فون پر رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کی سوچ اس تمام عمل سے ہی بنی ہو گی جس میں معلومات بھی ہیں اور دوست قوتوں کی جانب سے کیے گئے تجزیے بھی۔
لیکن پریشانی و حیرانی یہ ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بناتے اور بتلاتے ہوئے اس ملک کے خدوخال کچھ اس طرح متاثر ہو گئے ہیں کہ اب عوام کی آنکھ اپنے ملک کو پہچانے سے قاصر ہے۔ اعداد کا شمار دیکھیں تو تصویر خوفناک بنتی ہے۔ قرضوں کا انبار معیشت کو ڈبو رہا ہے۔1947 سے 2018 تک 30 کھرب روپے تک کے قرضے حاصل کیے۔ ان قرضوں کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں پھیلی ہوئی بدعنوانی، لوٹ مار اور قومی خزانے پر دن دیہاڑے ڈاکے مارنے کے تمام الزامات بھی جڑے ہوئے ہیں۔
یعنی عمرانی انقلاب سے پہلے جتنے بھی حکمران گزرے انہوں نے بدترین پلاننگ اور خوفناک ترین کرپشن کے نتیجے میں اس ملک کو 30 کھرب روپے کے قرضوں میں ڈبو دیا۔ عمران خان کی حکومت کے آتے ہی قوم کو بتایا گیا کہ اب ایک سیاسی مسیحا آ گیا ہے جو قرضوں کی دکان کو بند کرے گا۔ ملک کو اپنے وسائل کے بدست اپنے پاؤں پر کھڑا کرے گا اور اس طرح ایک آزاد قوم دوبارہ سے جنم لے گی۔
امید یہ دلوائی گئی تھی کہ 30 کھرب کے قرضے کم کر کے 20 کھرب کیے جائیں گے۔ تو اس طرح 10 کھرب کی بچت ہو گی اور چونکہ نئے قرضے نہیں لینے پڑیں گے تو یہ خطیر رقم عوام کی فلاح پر خرچ کر کے ان کے تمام خوابوں کی تعبیر کر دی جائے گی۔ مگر سٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سالوں میں 20 کھرب روپے کے مزید قرضے لیے گئے ہیں۔
جو ملک 2018 میں 71 سال کی ٹامک ٹوئیوں کے بعد 30 کھرب روپے کا مقروض تھا آج 50 کھرب کے قرضے کندھوں پر اٹھائے پھر رہا ہے۔ تین سالوں میں پاکستان کی تاریخ کے تمام قرضوں میں 70 فیصد کا مزید اضافہ اب ہماری اگلی نسلوں کو نگلنے کے لیے تیار ہے۔
مزید وضاحت کے لیے یہ سمجھ لیجیئے کہ 2018 میں پاکستان کا ہر شہری، بچہ بڑا، بوڑھا، جوان، جھولے میں جھولتا ہوا اور قبر میں ٹانگیں لٹکائے ہوئے فی کس ایک لاکھ 44 ہزار روپے کا مقروض تھا۔ ستمبر 2021 میں ہمارا ہر شہری انفرادی طور پر دو لاکھ 35ہزار روپے کا مقروض ہے۔ یہ قرضے اگر ان چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے جن کا وزیر اعظم ذکر کر رہے ہیں تو ان پر کوئی انگلی نہ اٹھاتا۔
ہم سب اپنے وزیراعظم کا لہجہ اپنائے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’قوم کو بنانے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم نے یہ پیسے ہر ممکنہ ذرائع سے قرض کی صورت میں حاصل کر کے پاکستان میں 1400 سال پہلے والی ریاست مدینہ جیسی صورت حال بنا دی ہے۔ اس کے بعد جب اس تبدیل شدہ قوم میں سے لیڈران اٹھیں گے تو وہ قرضوں کے ان انباروں کو ایک ہی جھٹکے میں واپس کر دیں گے‘ بلکہ مراد سعید کے محاورے کے مطابق جن سے یہ قرضہ لیا ہو ’ان کے منہ پر دے ماریں گے۔‘
مگر قوم اپنی صلاحیتوں کو نکھرتا ہوا نہیں دیکھ پا رہی۔ ایک بین الاقوامی سروے کے جاری شدہ رپورٹ کے مطابق 87 فیصد پاکستانی ملک کی سمت کے بارے میں پریشان ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ملک الٹے قدموں چل رہا ہے۔ دو تہائی کا خیال ہے کہ اگلے چھ ماہ میں بھی یہ حالات تبدیل ہونے کے نہیں ہیں۔ صرف پانچ فیصد تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ باقی سب کو اندھیرے نظر آ رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنی مایوسی کرونا (کورونا) وبا کے بدترین نتائج سے متاثر ہونے کے بعد بھی نہیں پھیلی تھی۔ یعنی اس وقت جب کاروبار تمام نظام زندگی کے ساتھ معطل ہو چکا تھا، عوام کی نسبتا زیادہ تعداد مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ رکھتی تھی۔ مگر اب مایوسی بلند ترین نکتے پر ہے۔
حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ پنڈال جس میں موجودہ حکومت کو دس، بیس سال تک طاقت میں رکھنے کے نعرے لگتے تھے اب مائیک پر پارٹی کارکنان کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کی باتوں سے گونجتے ہیں۔ وہ تمام قوتیں جو چھاتی پر ہاتھ مار کر فخر کے ساتھ 2018 میں انتخابات کو اپنی بہترین کامیابی کی ٹرافی کے طور پر پیش کرتے تھے اب ادھر ادھر چھپتے پھرتے ہیں کہ کہیں ان کو موجودہ نظام کے بارے میں سوالوں کے جواب نہ دینے پڑ جائیں۔
سرویز کے مطابق غربت میں اضافہ، ظالمانہ مہنگائی اور نہ ختم ہونے والی بے روزگاری نے ایک ایسی دلدل بنا دی ہے جس میں قوم مسلسل دھنستی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ وزیراعظم ریاست مدینہ کے عظیم انقلاب کی جھلکیاں کس کھڑکی سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ کون سی پہاڑی ہے جہاں سے ان کو اپنے لائے ہوئے انقلاب کا سورج اپنی تمام تابناکیوں کے ساتھ دمکتا ہوا نظر آ رہا ہے؟
اگر یہ پتہ چل جائے تو محترم وزیراعظم کی جانب سے پاکستان اور ریاست مدینہ کی کیفیت میں مماثلت کی مثال سمجھ میں آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس بڑ کا سر پیر تلاش کرنا عملاً ناممکن ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔