کراچی: ارسلان محسود قتل پر مشتبہ پولیس اہلکار کے خلاف کارروائی

اس واقعے کے بعد مقتول نوجوان کے رشتے داروں نے دھرنا دیا اور سوشل میڈیا پر’جسٹس فار ارسلان‘ کا ہیش ٹیگ بھی ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔

مقتول ارسلان محسود اورنگی ڈمپر ایسوسی ایشن کے عہدیدار حاجی لیاقت کے بیٹے ہیں اور ان کی چھ بہنیں اور چار بھائی ہیں (تصویر: ورثا ارسلان محسود)

کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں پیر کی شب 16 سالہ نوجوان ارسلان محسود کی ہلاکت کا سبب بننے والے مبینہ پولیس مقابلے کو پولیس حکام نے ہی جعلی قرار دے دیا ہے۔

ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ مشتبہ پولیس اہلکار کو گرفتار کرکے ان کے خلاف انسداد دہشتگردی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ 

واقعے کے بعد اورنگی ٹاؤن پولیس نے میڈیا کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ اورنگی نمبر پانچ میں تلاشی کے دوران موٹرسائیکل سوار افراد کو رکنے کا اشارہ کیا تو انہوں نے فائرنگ کردی۔

پولیس کے بیان کے مطابق جوابی فائرنگ سے 16 سالہ نوجوان ہلاک ہوگیا تھا، جب کہ پولیس نے پستول اور پانچ گولیاں برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ 

اس واقعے کے بعد مقتول نوجوان کے رشتے داروں نے دھرنا دیا اور سوشل میڈیا پر’جسٹس فار ارسلان‘ کا ہیش ٹیگ بھی ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔

واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک تین رکنی کمیٹی بنا کر جلد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

ناصر آفتاب نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ مشکوک مقابلہ پولیس چوکی پر نہیں بلکہ چوکی سے کچھ فاصلے پر ہوا اور فائرنگ کرنے والا پولیس اہلکار وردی کے بجائے سادہ لباس میں ملبوس تھا۔ مشکوک مقابلے کے بعد مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور فائرنگ کرنے والے اہلکار توحید کو حراست میں لینے کے ساتھ ایس ایچ او اورنگی اعظم گوپانگ کو معطل کردیا گیا ہے اور ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو جلد رپورٹ پیش کرے گی۔‘  

کمیٹی میں ایس ایس پی سینٹرل مرتضیٰ تبسم، ایس پی انویسٹی گیشن سینٹرل شہلا قریشی اور ایس پی گلبرگ کو شامل کیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی واقعے کی ایف آئی آر کے تحت مقتول ارسلان محسود کے چچا بادشاہ خان کی مدعیت میں درج مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے ساتھ انسداد دہشتگردی کی دفعہ سات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مقتول ارسلان محسود کے چچا بادشاہ نے بتایا کہ بارہویں جماعت کے طالب علم 16 سالہ ارسلان محسود اورنگی ڈمپر ایسوسی ایشن کے عہدیدار حاجی لیاقت کے بیٹے ہیں جو گذشتہ شب ٹیوشن سینٹر سے اپنے دوست یاسر کے ساتھ 125 موٹر سائیکل پر گھر واپس آرہے تھے کہ راستے میں پولیس نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔  

ان کے مطابق: ’یہ واقعہ رات کو نو ساڑھے نو بجے پیش آیا، ہمیں کچھ دیر کے بعد اطلاع دی گئی۔ جس کے بعد بڑی تعداد میں رشتہ دار عباسی شہید ہسپتال پہنچے اور دھرنا دیا۔ جس کے بعد پولیس حکام نے نوٹس لیا اور مقدمہ درج کرنے کو تیار ہوئے۔‘

بادشاہ خان نے کہا: ’ہمیں پاکستان کے قانون اور عدالتوں پر بھروسہ ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف ہوگا۔ محسود ایکشن کمیٹی بھی اس کیس کا جائزہ لے رہی ہے۔‘

مقتول ارسلان محسود کی چھ بہنیں اور چار بھائی ہیں۔  

’پولیس میں اصلاحات کے بغیر حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے‘ 

کراچی میں گذشتہ شب ہونے والا پولیس مقابلہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا کیس نہیں ہے۔ گذشتہ رات کو ہی نیو کراچی سیکٹر 11 جی کے قریب پولیس نے ڈاکوؤں سے مبینہ مقابلہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقابلے میں دو ڈاکو ہلاک اور ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا جب کہ 4 ملزمان فرار ہوگئے ہیں۔ 

2018 میں نقیب اللہ محسود کی مبینہ جعلی مقابلے میں ہلاکت کا الزام سابق ایس ایس پی راؤ انوار پر لگا تھا، اس واقعے پر بھی عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔  

معروف سماجی کارکن جبران ناصر نے واقعے پر کہا کہ پولیس اصلاحات کے بغیر کراچی کے حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جبران ناصر نے کہا: ’ارسلان قتل کیس کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سال بھی اسامہ ستی اور شہزاد چانڈیو کو جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے کے واقعات ہوچکے ہیں۔ جب تک پولیس کا محکمہ اپنی ذمہ داری نہیں سمجھے گا کہ پولیس میں اصلاحات لانی ہیں، تب تک یہ واقعات ہوتے رہیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا، ’پولیس صرف یہ دیکھتی ہے کہ مرنے والا کوئی بااثر تو نہیں ہے۔ اس کے بعد کوئی اقدام اٹھاتی ہے۔ ارسلان کے والد ڈمپر ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ انہوں نے واقعے کے بعد مظاہرہ کیا لوگوں کو جمع کیا تو ڈی آئی جی نے اہکار کو گرفتار کرنے کے ساتھ کمیٹی بنا دی۔‘

’دوسرے واقعات میں پولیس سے یہی اقدامات کرانے میں آپ کو چھ مہینے لگتے ہیں۔ ایسے میں اس شہر کے حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔‘  

جبران ناصر کے مطابق گذشتہ سال کراچی کے شاہ فیصل کالونی میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے نوجوان مقصود کی ہلاکت پر انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس کے مرکزی ملزم ایک اے ایس آئی کو سزائے موت سنائی تھی۔  

2018 اکتوبر میں ڈیفنس کے علاقے میں نوجوان انتظار احمد کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا تھا۔ اس سال، انسداد دہشت گردی عدالت نے اس واقعے میں ملوث آٹھ اہلکاروں میں سے دو اہلکاروں کو پھانسی اور چھ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 

جبران ناصر نے کہا: ’اس سب سے یہ لگتا ہے کہ پولیس اپنے خلاف ان تمام کیسز کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ پولیس کا محکمہ ان کیسز کو چارج شیٹ کے طور پر نہیں لے رہا جب کہ جرم بھی ثابت ہوچکا ہو۔ نقیب اللہ محسود کیس کے بعد بڑا شور مچا تھا کہ پولیس کے پاس کس قسم کے ہتھیار ہیں اور ان کو کس قسم کی تربیت دی گئی ہے۔‘ 

انہوں نے کہا، ’وہ کونسے حالات تھے جب پولیس کو یہ ہتھیار دیے گئے تھے اور جب شہر میں افراتفری تھی تو انہیں کہا گیا تھا کہ گولی ماردو۔ اس وقت شہر میں تحریک طالبان، بھتہ گینگ، لیاری گینگ اور دیگر جرائم پیشہ افراد سرگرم تھے۔ اب بھی شاید پولیس کو لگتا ہے کہ حالات دوبارہ خراب ہوں گے، اس لیے پولیس میں کوئی تبدیلی لانے یا ان کو دیے گئے ہتھیاروں کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان