زہریلی مٹھائی سے موت: آوارہ کتوں کی نسل کشی کیسے ممکن؟

کراچی میں آوارہ کتوں کو کھلانے کے لیے بنائی گئی زہریلی مٹھائی کھانے سے ایک بچے کی ہلاکت نے حکومت کے ان اقدامات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جنہیں جانوروں کے تحفظ پر کام کرنے والے ظالمانہ قرار دیتے آئے ہیں۔

راولپنڈی میں 21 مارچ کو ایک شخص آوارہ کتوں کو کھانا کھلا رہا ہے (اے ایف پی)

کراچی میں زہریلی مٹھائی کھانے کے بعد ایک بچے کی موت اور کئی افراد کے بے ہوش ہونے کے کیس میں پولیس نے میونسپل کارپوریشن کے ایک ملازم کو گرفتار کر لیا ہے، جس نے آوارہ کتوں کو مارنے کے لیے اپنی موٹرسائیکل پر مٹھائی رکھی ہوئی تھی۔

سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کورنگی شاہ جہاں خان نے منگل کو مقامی میڈیا کو بتایا تھا کہ علاقے کی کرسچن کالونی میں زہریلی دوائی ملے لڈو کھانے سے ایک تین سالہ بچہ ہلاک اور پانچ افراد بے ہوش ہوگئے جنہیں جناح ہسپتال لے جایا گیا۔  

ایس ایس پی کے مطابق کورنگی میونسپل کارپوریشن کے ایک ملازم کو گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے کتا مار مہم کے لیے زہریلی مٹھائی بنا کر اپنی بائیک کی سائیڈ پاکٹ میں رکھی تھی، جسے پیر کی شب بچے نکال کر اپنے گھر چلے گئے اور کھانے پر ان کی حالت غیر ہوگئی۔

اس کیس نے آوارہ کتوں کی آبادی کو کم کرنے اور ریبیز کی بیماری سے شہریوں کو بچانے کے لیے سندھ حکومت کے اقدامات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جنہیں جانوروں کے تحفظ کر کام کرنے والے اداروں نے ظالمانہ قرار دیتے آئے ہیں۔

سندھ حکومت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں کتوں کی آبادی 28 لاکھ ہے۔ حکومت ان کتوں کی آبادی کو کم کرنے کے لیے سرکاری سطح پر کئی اقدامات کرتی رہتی ہے، جن میں کتوں کو گولی مارنا یا زہر دے کر مارنا شامل ہیں۔

جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے احتجاج کے بعد سندھ اور بلدیاتی حکومت کے افسران  اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ اب کتوں کو زہر دے کر ان کی نسل کشی نہیں کی جاتی، تاہم صوبائی حکومت کے اپنے اعداد و شمار اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ 

بلدیاتی حکومت سندھ کے سیکرٹری نجم احمد شاہ نے 21 ستمبر کو سندھ ہائی کورٹ میں سرکاری اعداد و شمار کے متعلق ایک رپورٹ جمع کروائی کہ رواں سال جون سے ستمبر کے چار ماہ کے عرصے میں حکومت نے صوبے میں 25419  آوارہ کتوں کو مارا، جن میں صرف 3864  کراچی شہر میں تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سندھ میں کتوں کے کاٹنے کے بڑھتے ہوئے کیسوں کے بعد صوبائی حکومت نے گذشتہ سال جون میں آوارہ کتوں کی نسل کشی کے بجائے ان کو پکڑ کر ویکسین لگانے کے لیے ایک ارب روپے کی لاگت سے ایک پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود اس پروگرام میں زیادہ پیش رفت نظر نہیں آئی ہے۔

آوارہ کتوں کی نسل کشی کا طریقہ کار  

کراچی کے گلبرگ ٹاؤن کے میونسپل افسر ظہیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی آوارہ کتے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر یہ کتے انسانوں، خاص طور پر بچوں اور خواتین پر حملہ کر دیتے ہیں، جس کے بعد لوگ شکایات کرتے ہیں کہ ان کے علاقے سے کتوں کا خاتمہ کیا جائے۔ ’ماضی میں کتوں کو زہر دے کر ہلاک کیا جاتا تھا، مگر اب طریقہ کار تبدیل ہو رہا ہے۔‘

ظہیر احمد نے بتایا کہ جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے احتتاج کے بعد اب آوارہ کتوں کو زہر دینے کی بجائے انہیں پکڑ کر ان کے تولیدی نظام کو ناکارہ بنایا جاتا ہے اور انہیں ریبیز کی ویکسین لگائی جاتی ہے تاکہ وہ کسی کو کاٹیں بھی تو بیماری نہ پھیلے۔  

ان کا کہنا تھا: ’ابھی بھی کراچی کے کئی ٹاؤنز میں آوارہ کتوں کو زہر دے کر ہلاک کیا جاتا ہے۔ ہمارے ٹاؤن میں کچھ عرصہ قبل آوارہ کتوں نے ایک بچے پر حملہ کر دیا تھا، جس کے بعد مجبوراً ان کتوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنا پڑا۔‘

انہوں نے بتایا کہ عام طور پر کتوں کو گوشت میں زہریلی دوائی لگا کر دی جاتی ہے، جس کو کھانے کے بعد کتا ہلاک ہوجاتا ہے۔ مگر کتے اور بلیاں مٹھائی بھی شوق سے کھاتے ہیں اس لیے کچھ ٹاؤنز گوشت کے بجائے مٹھائی کا استعمال کرتے ہیں۔   

ریبیز کی بیماری کیا ہے؟  

صحت کے ماہرین کے مطابق یہ ایک وائرل انفیکشن ہے جو ریبیز سے متاثرہ کتے، بلی، لومڑی، گیدڑ، چمگادڑ یا ایسے کسی جانور کے کاٹنے پر تھوک سے انسان میں داخل ہو جاتا ہے۔

ریبیز کے اثرات ظاہر ہونے پر مریض کے دماغ میں سوجن ہوجانے کے بعد وہ حواس کھو بیٹھتا ہے۔ ایسے مریض اکثر بے قابو ہو جاتے ہیں، انہیں پانی سے خوف آتا ہے اور ذہنی انتشار اور ہوش کھونے جیسی علامات بھی ہوسکتی ہیں۔  

قومی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہر سال پانچ ہزار پاکستانی ریبیز سے متاثر ہوتے ہیں اور ملک میں سب سے زیادہ کیس سندھ میں ریکارڈ ہوتے ہیں۔  

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ریبیز سے انسانوں کی اموات کا 99 فیصد کتوں کے کاٹنے سے ہوتا ہے، متاثرین میں 40 فیصد 15 سال سے کم عمر بچے ہوتے ہیں جبکہ ریبیز سے 95 فیصد اموات ایشیا اور افریقہ میں ہوتی ہیں۔  

عالمی ادارہ صحت کے مطابق صرف کتوں کے کاٹنے کے علاج پر دنیا بھر میں 8.6 ارب امریکی ڈالر کا خرچہ آتا ہے، جو عالمی معشیت پر بوجھ ہے۔

بروقت ویکسن لگا کر انسان کو ریبیز سے محفوظ کیا جاسکتا ہے اور اقوام متحدہ 2030 تک ’کتے کے کاٹنے سے انسانوں میں ریبیز کے زیرو کیس‘ پراجیکٹ پر کام کررہا ہے۔  

پاکستان میں کتوں کی ہلاکتیں

اٹلی میں قائم جانوروں کے تحفظ کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار اینیمل پروٹیکشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان کی گلیوں میں 50 ہزار سے زائد کتے حادثوں کا شکار ہوجاتے ہیں یا انہیں مار دیا جاتا ہے اور حکومت خود ملک کے تقریباً ہر شہر میں کتوں کو زہر دے کر مارتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق: ’صرف لاہور اور کراچی شہر میں ہر سال 20 ہزار کتوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔‘ 

تنظیم نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان میں کتوں کی ہلاکت کو روکیں اور تجویز دی ہے کہ کتوں کو مارنے کے بجائے پکڑ کر تولیدی نظام ناکارہ بنا کر اور ویکسین لگا کر چھوڑ دیا کریں۔  

آوارہ کتوں کی نسل کشی پر متنازع قوانین  

پاکستان میں برطانوی دور حکومت کا جانوروں پر ظلم و ستم کی روک تھام کا قانون ’پریوینشن آف کرولٹی ٹو اینیملز ایکٹ 1890‘ آج بھی رائج ہے۔ اس قانون کے تحت مرتکب افراد کو قابلِ گرفت لایا جاسکتا ہے۔ اس قانون میں 1890 کے حساب سے جرمانہ رائج ہے جو اب انتہائی کم ہے۔ 

اس لیے 2018 میں سینیٹر کریم خواجہ نے اس قانون میں ترمیم کا بل جمع کروایا جسے ایوان نے منظور کرلیا اور اب قانون میں رکھی گئی جرمانے کی رقم کو کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے۔

ایک طرف تو یہ قانون ہے جس میں جانوروں پر ظلم و ستم کرنے پر جرمانہ رکھا گیا تو دوسری جانب نہ صرف صوبائی اور مقامی حکومتیں کتوں کی نسل کشی کی مہم چلاتی ہیں، بلکہ کتوں کو مارنا لازم قرار دیتے ہوئے قانون بھی لائی ہیں۔  

سندھ بلدیاتی قانون 2013 میں حکومت نے مقامی حکومتوں کو کتوں کو پکڑنے اور مارنے کا بھی اختیار دیا ہے۔  

حل کیا ہے؟ 

جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی کارکن زینیہ شوکت نے کتوں کی نسل کشی کو انتہائی ظلم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کتوں کو مارنے کے بجائے ان کے ساتھ امن سے بھی رہا جاسکتا ہے۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’ہمارے معاشرے میں یہ عام تاثر ہے کہ تمام کتوں میں ریبیز کا وائرس ہوتا ہے، مگر تحقیق کے مطابق صرف پانچ فیصد کتوں میں ریبیز ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کتوں کو مارنے کی بجائے ان کے تولیدی نظام کو ناکارہ بنا کر ویکسین لگا کر آزاد کیا جانا چاہیے۔ ’جتنا خرچہ کتوں کی ویکسین پر آتا ہے، وہ ریبیز کے ویکسین کے خرچے سے انتہائی کم ہے۔ حکومتیں کتوں کو مار کر عوام کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ جو آپ کو پسند نہیں اسے مار دو۔ یہ ظلم ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ زہر کھانے کے آٹھ منٹ تک کتا اذیت میں رہتا ہے اور یہ ظلم ہے۔  

زینیہ شوکت نے مزید کہا: ’کتا بھی ہمارے ماحول کا حصہ ہے، جہاں انسان ہوتے ہیں، وہیں کتا پایا جاتا ہے۔ ہم کتے کو مارنے کی بجائے ان کے ساتھ سکون سے رہ سکتے ہیں۔ اگر ہم کتوں کا خیال کریں اور ان سے محبت کریں تو وہ بھی ہم سے محبت کریں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان