عدالتی فیصلے پر جے یو آئی کا احتجاج: ’ہمت ہے تو مسجد گرا کر دیکھیں‘

سپریم کورٹ کے کراچی کے طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد کی تعمیرات ختم کر کے پارک کی زمین بحال کرنے کے حکم کے بعد جمیعت علما اسلام کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت مسجد گرانے نہیں دیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قاری محمد عثمان جے یو آئی کے صوبائی ناظم مالیات مولانا محمد غیاث اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ بدھ کو مدینہ مسجد پہنچے (تصویر: جے یو آئی)

سپریم کورٹ کے کراچی کے طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد کی تعمیرات ختم کر کے پارک کی زمین بحال کرنے کے حکم کے بعد جمیعت علما اسلام کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت مسجد گرانے نہیں دیں۔

جمیعت علما اسلام سندھ کے جنرل سیکرٹری مولانا راشد محمود سومرو نے واٹس ایپ پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’اگر کسی میں ہمت ہے تو مسجد گرا کر دیکھیں۔ اگر مسجد سلامت نہیں رہی تو آپ کے دفتر بھی سلامت نہیں رہیں گے۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کراچی کی دو مساجد بشمول کڈنی ہل پارک کی الفتح مسجد اور طارق روڈ کی مدینہ مسجد کی تعمیر کے اجازت نامے منسوخ کرتے ہوئے عوامی پارک کی زمین پر تعمیر ہونے والی ان دونوں مسجاد کی تعمیرات کو ہٹا کر عوامی پارک کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے حکومت کو پارک بحال کر کے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

دوسری جانب جمیعت علما اسلام کے مرکزی رہنما اور کراچی کے ضلع کیماڑی کے امیر قاری محمد عثمان نے کہا ہے کہ مدینہ مسجد طارق روڈ کا ہر صورت میں دفاع کیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اپنی جان دے سکتے ہیں، مسجد کی ایک اینٹ بھی گرانے نہیں دیں گے۔ عدالت عالیہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔‘

سیکریٹری اطلاعات جمیعت علما اسلام ضلع کیماڑی کراچی قاضی امین الحق آزاد کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قاری محمد عثمان جے یو آئی کے صوبائی ناظم مالیات مولانا محمد غیاث اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ بدھ کو مدینہ مسجد پہنچے اور نمازیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسجد گذشتہ 41 سالوں سے قائم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان کہ مطابق ان کا کہنا تھا کہ ’جس جگہ مسجد بن جائے وہ قیامت کی صبح تک مسجد ہو جاتی ہے۔‘مسجد ہر حال میں مسجد ہے، اسے منتقل کرنا بھی ازروئے شریعت جائز نہیں۔ جب غیرقانونی جگہوں پر بنی عمارتیں ریگیولر ہوسکتی ہیں تو مسجد کیوں نہیں۔‘

قاری محمد عثمان کے مطابق: ’1980 سے قبل یہاں کے رہائشی اور تجارتی حضرات کے لیے نماز ادا کرنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اہل محلہ نے مدینہ مسجد کی تعمیر شروع کی اور جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے الحاق کیا۔‘

’اس کے بعد ہر سال آڈٹ ہوتا رہا ہے۔ تمام یوٹیلیٹی بلز وغیرہ ادا کیے جاتے ہیں اور ہر سال گوشوارہ آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ رجسٹرڈ کمپنی سے کرایا جاتا ہے۔‘

قاری محمد عثمان نے کہا کہ پورے ملک میں ذاتی جائیدادیں ریگولرائز ہورہی ہیں تو مساجد میں کیا مسئلہ ہے۔ خدارا اس ملک کو انارکی کی طرف نہ دھکیلا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان