ہمیں تو خوشی منانا بھی نہیں آتا

عید ہو یا کوئی اور خوشی کا موقع، ہم بےہنگم طریقوں سے خوشی کا اظہار کر کے اسے ماتم میں بدلنے کے فن میں مہات رکھتے ہیں۔

(پکسابے)

چھوٹی عید کا چاند جہاں بہت سے انعامات اور مسرتیں لے کر طلوع ہوتا ہے اُس وقت اپنے ساتھ غم کی اندوہناکیاں بھی لے آتا ہے۔

عید کا چاند دکھائی دیتے ہی نوجوان موٹر سائیکل نکال کر خرمستیاں شروع کر دیتے ہیں، اور پھر وہ چاند رات خاندان پر عذاب بن کر ٹوٹتی ہے جب والدین کو اطلاع ملتی ہے کہ موٹر سائیکل کے ایکسیڈنٹ میں بیٹا ہڈیاں تڑوا بیٹھا ہے۔ ان والدین کی چاند رات یا تو پولیس کی منتیں کرتے ہوئے رات گزرتی ہے یا پھر وہ ہسپتال میں اپنے لال کی ہڈیوں کے جوڑنے کی تگ ودو میں لگے ہوتے ہیں جہاں ڈاکٹر بھی پولیس کا کیس جان کر انہیں خاص لفٹ نہیں کراتے۔ خاص کر موٹر سائیکل کے ایکسیڈنٹ والے کیسز بہت مشکل سے لیتے ہیں، اور یوں کچھ والدین کی عید کی خوشیاں غارت ہو جاتی ہیں۔

پھر عید آجاتی ہے۔ ایک دن آرام سے گزرتا ہے اوردوسرے روز دوستوں کے ساتھ پھر پکنک پر جانے کی رٹ لگ جاتی ہے۔ ماں باپ بچوں کی خوشیوں کے لیے انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت دے دیتے ہیں اور یہ اجازت اُن والدین کے لیے وبال جان بن جاتی ہے جب اطلاع ملتی ہے کہ بیٹا نہر میں نہاتے ہوئے پانی میں ڈوب گیا ہے، یا پھر موٹر سائیکل پر دوستوں کے ساتھ ریس لگاتے ہوئے جان سے چلا گیا ہے اور یوں عید کا دوسرا دن جہاں خوشیاں ناچتی ہیں وہاں موت کا رقص ہونے لگتا ہے۔

یہ صرف چاند رات کی عید کی بات نہیں ہے۔ کسی بھی تہوار کے بعد اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ اندازہ ہو جائے گا۔ کہ کتنی اموات ہوئی ہیں۔ یہ وہ اموات ہیں جس میں ہمارے نوجوان خود ملک الموت کو اپنے پاس بلاتے ہیں اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔

14 اگست، یوم پاکستان، الیکشن کے دنوں کی ہلڑ بازیاں، شادی بیاہ کے مواقع پر خوشی کے گھر ماتم کدہ بن جاتے ہیں۔ ہم عید کا چاند دیکھ کر، پاکستان کا کوئی بھی فائنل میچ جیت کر، اپنی پسندیدہ پارٹی کے برسر اقتدار آنے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خوشی کے موقعوں پر ہوائی فائرنگ کرنا ایک قدیم اور قابل فخر روایت سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ یہی ہوائی فائرنگ کی اندھی گولی کسی کو زخمی یا ہلاک بھی کر دیتی ہے۔ ہمیں اچھی طرح پتہ بھی ہوتا ہے کہ یہ اندھی گولی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ اس کے باوجود ہر سال کتنے لوگ ہوائی گولی لگنے سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔

رمضان کے آخری عشرے میں اخبارات میں ٹی وی اور ریڈیو اب سوشل میڈیا پر عوام کی اگاہی کے لیے مہم شروع ہو جاتی ہے کہ سمندر پر یا نہروں میں نہانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، بغیر لائنسس موٹر سائیکل چلانے پر پابندی ہے، ہوائی فائرنگ کرنا منع ہے، وغیرہ۔ مگر پھر بھی ان قوانین کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ دفعہ 144کے نفاذ کے باوجود بھی ہم وہی حرکتیں کرتے ہیں جو اچھی اور تہذیب یافتہ قوم کو زیب نہیں دیتی۔

مغرب میں بھی خوشی منانے کے لیے یہی کچھ کیا جاتا ہے۔ وہ شراب پی کر غل غپاڑہ مناتے ہوئے گاڑی کو ٹوک دیتے ہیں اور اپنی خوشی کو غارت کر دیتے ہیں۔ مگر ہم بغیر شراپ پیے اتنے مست ہوتے ہیں کہ بھری سڑکوں پر جس پر ٹریفک رواں دواں ہو ہم ون ویلنگ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اب چنگ چی رکشہ پر بھی ریس لگاتے ہیں۔ ہمیں تیرنا نہیں آتا مگر پکنک پر جاتے ہوئے دوستوں کے ساتھ شرط لگاتے ہوئے دوسرے کنارے پر ضرور جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ