بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے تعلقات عجیب و غریب کیفیت میں عرصہ دراز سے گزر رہے ہیں۔
کہنے کو تو ہمارا طویل و مسلسل بات چیت کے نتیجے کی صورت میں قرض دینے والے اس ادارے کے ساتھ معاہدہ طے پایا۔ ہر سال اس ادارے کا بورڈ ہماری کارکردگی کو پرکھتا ہے اور پھر قرضے کی اگلی قسط جاری کرنے یا نہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ریاست و حکومت کے تمام سربراہان اس بات چیت میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک رہے ہیں۔
حکومت، وزیراعظم عمران خان کی قیادت اور ان کی ہدایات کی روشی میں آئی ایم ایف کے ساتھ لین دین کر رہی ہے۔ چونکہ معیشت قومی سلامتی سے جڑی ہے لہذا فوجی سربراہ کی جانب سے رائے شامل ہے۔ جب اتنے بڑے پیمانے پر یہ معاملہ چلایا جا رہا ہو تو توقع یہی کی جانی چاہیے کہ اس کے مختلف پہلوؤں میں شفافیت اور استحکام موجود ہوگا۔ یعنی قوم کو پتہ ہوگا کہ کیا ہو رہا ہے، اسی طرح فریقین کو بھی معلوم ہوگا کہ انہوں نے کس وقت کیا کرنا ہے۔
بدقسمتی سے آئی ایم ایف کی حد تک تو معلومات واضح ہیں کہ پاکستان کی کارکردگی کو کب، کیسے اور کن بنیادوں پر پرکھنا ہے۔ ان کے اجلاسوں کا شیڈول ان کی ویب سائٹ پر مل جاتا ہے۔ ان کے نمائندگان کبھی کبھار صحافیوں سے بات کرکے اپنا نکتہ نظر بھی بیان کر دیتے ہیں اور اگر وہ کچھ نہ بھی بولیں اور لب سی لیں تو بھی آئی ایم ایف کا پاکستان جیسے ملکوں سے رابطہ جس فارمولے کے تحت بنایا جاتا ہے، اس پر تحقیقاتی مواد کی کوئی کمی نہیں ہے۔
ذرا سی زحمت کرلیں تو انٹرنیٹ ہی آپ کو بتا دے گا کہ آئی ایم ایف پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ ہماری طرف بہرحال ایک چکرا دینے والی کشمکشں اور تضادات سے بھری پالیسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ ہم ہر روز ایک نیا پینترہ بدلتے ہیں لیکن نتیجہ آخر میں وہی نکلتا ہے جو آئی ایم ایف کو مقصود ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے متعلق سرکاری بیانات کو پڑھیں تو آپ کو تضادات کی بھرمار نظر آتی ہے۔ پہلے ہم نے سرکاری طور پر جو بیانیہ سنا اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
’آئی ایم ایف کے پاس جانا خود کشی کرنے کے مترادف ہے، آئی ایم ایف پاکستان جیسے ممالک میں معاشی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس طرح کے قرضے لینے سے نہ عزت بچتی ہے اور نہ خود مختاری۔‘
اس کے بعد ایک اور بیانیہ سامنے آیا جو کچھ یوں تھا۔ ’آئی ایم ایف کے پاس جانا ایک وقتی ضرورت ہے جو اس وجہ سے پیش آ رہی ہے کہ ماضی میں بدعنوان حکومتوں نے معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا، لیکن اگر آئی ایم ایف نے ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ان کو چائے پلا کر خداحافظ کہہ دیں گے۔‘
پھر ایک اور تبدیلی آئی اور بیانیہ یہ بنا۔ ’آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس ایسی ٹیم موجود ہو جو پاکستان کے لیے بہترین ڈیل حاصل کرسکے، ہمیں کچھ فیصلے جلدی کرنے ہیں لیکن آپ تسلی رکھیں کوئی ایسے اقدامات نہیں لیے جائیں گے جن سے عوام پر بوجھ پڑے، اس دوران پاکستان دوسرے ذرائع سے بھی رابطہ کر رہا ہے تاکہ آئی ایم ایف ہماری مجبوری نہ بن جائے۔‘
پھر مخلتف وزرا، مشیران اور سٹیٹ بینک جیسے اداروں کے سربراہان تبدیل کرنے کے بعد یہ بتایا گیا۔ ’آئی ایم ایف کے مطالبات بہت کڑے ہیں ہمیں بہرحال کچھ ایڈجسٹمنٹس کرنی پڑیں گی جن کا کچھ اثر عوام پر پڑے گا لیکن یہ سب کچھ جلد ہی ایک ایسی معاشی قوت میں تبدیل ہو گا جو پاکستان کی قسمت بدل دے گا۔‘
اس کے بعد بیانیہ نہیں صرف بیانات سامنے آتے رہے جن کو پڑھ کر پتہ چلا کہ وہ آئی ایم ایف جس کو جوتے کی نوک پر رکھنا تھا ہماری گردن پر سوار ہے، وہ عوام جن کو بین الاقوامی افسر شاہی اور ان کے نمائندگان کے غیرحقیقی مگر لوہے جیسے سخت نظریات کی ضرب سے بچانا تھا، اس ادارے کے ساتھ بات چیت کے پہلے اور واحد شکار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ تمام شرائط جو ہم نے نہیں ماننی تھیں مان لی گئیں اور آخر میں آئی ایم ایف کی جدید تاریخ کا سخت ترین شرائط سے بھرا ہوا پروگرام لاگو کر دیا گیا۔ کمال امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہم نے قوم کو چھوٹی چھوٹی قسطوں میں آئی ایم ایف کی شرائط سے آگاہی دی اور وہ بھی اس وجہ سے کہ اس کے بغیر کوئی اور چارہ نہ بچا تھا۔
صحافی اور آئی ایم ایف کے نمائندگان جب خبروں کے ذریعے یہ بتانے لگے کہ سرکاری سورماؤں نے کن شرائط پر قرضہ لیا ہے تو پھر ظاہر ہے معلومات دینا ایک مجبوری تھی۔ اس وقت آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت پر مکمل طور پر حاوی ہے۔ حکومتوں کے قرضے لینے کی حد سے لے کر عوام سے بل وصول کرنے تک کے عمل میں اس کی ڈکٹیشن شامل ہے۔
نام نہاد منی بجٹ مکمل طور پر آئی ایم ایف کے مطالبے پر بنایا گیا اور تماشے کے باوجود، جو اس کو وقتی طور پر موخر کرنے کے لیے لگایا گیا، اس کو پاس کروانا اور پھر اس کی رپورٹ آئی ایم ایف کے بورڈ کے سامنے رکھنا وہ ذمہ داری ہے جو حکومت نے خود قبول کی ہے۔ منی بجٹ کے ساتھ خواہ مخواہ کی ہاکی کھیل کر نہ تو اس سے جان چھڑائی جا سکتی ہے اور نہ ہی آئی ایم ایف کو غچہ دیا جا سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے بعد معاشی جنگ جیتنے کے دعوے بےمعنی ہیں۔ بالکل ان پھلجڑیوں اور پٹاخوں کی مانند جو نئے سال کے آغاز پر آسمان کو لمحاتی روشنی دیتے ہوئے اس کھوکھلے تصور کو جنم دیتے ہیں کہ جیسے آںے والا سال جانے والے سال کی نحوستوں سے پاک ہوگا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔