ایک تھا ٹائیگر ۔۔

پرویز خٹک کو معلوم ہے کہ نہ صرف انہوں نے بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کو جھیلنا ہے بلکہ عام انتخابات - جو کہ تقریباً سر پر آن کھڑے ہونے والے ہیں - میں بھی ووٹ مانگنے جانا ہے۔

وزیر دفاع پرویز خٹک نے اکیلے میں اپنے خدشات کا اظہار کیوں نہیں کیا بھی اہم سوال ہے۔ 9 جنوری 2019 کو وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری ایک تصویر (فوٹو: وزیر اعظم ہاؤس)

حکمراں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں منی بجٹ والے روز جو ہوا، وہ بظاہر فلم کا ٹریلر نہیں بلکہ انٹرول تھا۔ ایسا وقفہ جو فلم کےکلائمکس کے تجسس کا اشتیاق بڑھا دیتا ہے اور کہانی کے اختتام کو مزید گھمبیر بنا دیتا ہے۔

ہم صحافی تو گذشتہ تین سالوں سے مسلسل اپنے کالموں میں بھی لکھ رہے تھے، پروگراموں اور تجزیوں میں بھی بول رہے تھے کہ سب اچھا نہیں ہے، حالات مزید سے مزید خراب ہو رہے ہیں، معاملات ہاتھ سے پھسلتے جا رہے ہیں، لیکن حکومت کے بدخواہ درباری اور خوشامدی شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے خوشنما موسموں کی نوید ہی دیتے چلے گئے۔

حتی کہ یہ لاوا خود حکومت اور اس کی اپنی جماعت کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں کے اندر پکنا شروع ہو گیا۔ اوّل اوّل تو گاہے گاہے ڈھکی چھپی سرگوشیوں کی مانند خبریں آنا شروع ہوئیں پھر ان سرگوشیوں کو آواز ملی اور اب تو گویا نقّار خانہ چیخ اٹھا۔

پہلے پہل تو کوئی ایک آدھ ایم این اے، ایم پی اے، پارٹی چھوڑ کر جانے والے یا نکالے جانے والے راندۂ درگاہ ہی آواز اٹھانے کی جرات کرتے تھے مگر اب تو گھر کے ہر سیاہ و سفید کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھا دی۔ پرویز خٹک نہ صرف عمران خان کے چہیتے بلکہ انتہائی معتمد ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ آپ انہیں وزیراعظم کے دائیں بازو کے ساتھیوں میں سے بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ خیبرپختونخوا میں دو بار تحریک انصاف کو حکومت ملنے اور ٹکے رہنے میں پرویز خٹک کا بہت کلیدی کردار ہے۔

اسی بنا پر تو رائٹ ہینڈ مین نے کپتان کو جتوایا بھی دیا ہم نے اور وزیراعظم بنوایا بھی ہم نے۔ لیکن سوچنے کی اصل بات تو یہ ہے کہ آخر پرویز خٹک جیسا دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کا، ناپ تول کر سیاست کرنے والا، میڈیا اور پبلسٹی سے دور رہنے والا شخص اس نہج تک کیسے آ گیا کہ خود اپنے رہنما اور اپنے ہی وزیراعظم کے گریبان تک اس طرح پہنچ جائے کہ میڈیا پر طوفان برپا کر دے۔

ظاہر ہے کہ اس کی سب سے اوّلین اور بنیادی وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے بیڈ گورننس اور قریب آتے انتخابات۔ خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں حکمران جماعت کو جو سرپرائز اور شکست ہوئی اس کی بنیادی وجہ بھی عوام کے لیے روز بروز بڑھتی مہنگائی، گیس اور بجلی کے بل تھے اور اب شدید سرد موسم میں صوبے سے گیس کی پیداوار کے باوجود خیبرپختونخوا کو گیس نہ ملنا اور گھریلو کنکشنوں پر پابندی ہونا عوام کے مزید غیظ و غضب کاباعث بن رہا ہے۔

درست ہے یا غلط، اس بحث سے قطعِ نظر، گیس کنکشنز پاکستان کے انتخابی ماحول میں ووٹ حاصل کرنے کابہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پرویز خٹک کو معلوم ہے کہ نہ صرف انہوں نے بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کو جھیلنا ہے بلکہ عام انتخابات، جو کہ تقریباً سر پر آن کھڑے ہونے والے ہیں، میں بھی ووٹ مانگنے جانا ہے۔ بیڈ گورننس کی ایسی صورت حال میں تو بلدیاتی انتخابات کیا جنرل الیکشن میں بھی جیت ناممکنات میں نظر آ سکتی ہے۔

ایسے حالات میں پرویز خٹک جیسے بندے کا بھڑک جانا قطعاً سمجھ سے بالاتر نہیں۔ لیکن بڑی بات تو یہ ہے کہ غصہ متعلقہ وزیر پر نہیں بلکہ براہ راست وزیراعظم پر ظاہر کیا گیا ہے اور اس کے لیے موقع کا چناؤ بھی بڑا معنی خیز رکھا گیا یعنی جس روز کپتان کو اپنے انتہائی قریبی ساتھی کا اعتماد اور ووٹ منیبجٹ کے لیے درکار تھا جس پر یہی ساتھی دیگر کئی رفقا کے ہم آواز پہلے ہی شدید تحفظات کا اظہار بھی کر چکا تھا۔

گذشتہ تین ساڑھے تین سال کی دگرگوں معاشی صورت حال کا سیاسی خمیازہ اب رفتہ رفتہ وزیراعظم کے سامنے آ رہا ہے۔ نہ صرف ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں شکست کا سامنا ہو رہا ہے بلکہ حکومت اور جماعت کے اندر بےچینی کا لاوا ابل کر باہر آ رہا ہے۔

کپتان کو اس تمام تر دباؤ کا پہلے سے ہی اندازہ تو تھا مگر وقت کا یقیناً احساس نہیں تھا وگرنہ پرویز خٹک کی جارحانہ بالنگ کے سامنے کپتان ایک دم سے بیٹ پھینک دینے اور مخالف ٹیم کو باری دے دینے کے آخریں مرحلے تک ایک جست میں ہی نہ پہنچ جاتے۔

اس اندرونی جھٹکے نے ایک بات تو واضح کر دی کہ وزیراعظم دباؤ میں ہیں اور پریشر بھی شدید ہے۔ شاید یہ وہ کپتان بھی نہیں جس کے بارے میں 92 کے ورلڈ کپ کی ’کارنرڈ ٹائیگر‘ کی اصطلاح مشہور ہے۔ کیا کپتان کو احساس ہو گیا کہ سیاست کرکٹ کا میدان نہیں یا اب کپتان 92 کے ٹائیگر کی طرح انڈر پریشر بھی بہترین پرفارم کرنے سے قاصر ہو گئے ہیں وگرنہ اتنی آسانی سے ایک کھلاڑی کی تنقید پر فوراً کریز چھوڑ دینے کی بات تک نوبت ہی نہ آنے پاتی۔

ایک طرف عوام کا پریشر جو روز بروز دن دگنی رات چگنی ترقی کرتی مہنگائی سے نالاں ہیں، دوسری جانب اپوزیشن کے بدلتے پینتروں کا پریشر، مخالف سیاسی جماعتوں کی مسلسل انتخابی فتوحات کا پریشر، اتحادی جماعتوں کی ناراضگیوں کا پریشر، حکومت اور جماعت کے درونِ خانہ پکتے لاوے کا پریشر، ان تمام عناصر کے مشترکہ دباؤ کا نتیجہ آنے والے جند دنوں یا ہفتوں میں ہی لگایا جا سکے گا کہ کپتان ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اب کس صورت حال میں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم خود بھی فرما چکے ہیں کہ آئندہ تین ماہ ان کی حکومت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ان تین ماہ میں خیبرپختونخوا بلدیاتی الیکشن مرحلہ دوئم کی تاریخ بھی آسکتی ہے۔ پنجاب کے لوکل گورنمنٹ الیکشن بھی وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد بلدیاتی انتخاب کی تاریخ پہلے ہی آ چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپوزیشن کے دو الگ الگ لانگ مارچ بھی حکومتی اعصاب ٹیسٹ کرنے کو تیار کھڑے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ مقررہ وقت پر ہوتا ہے یا نہیں۔ انہی صفحات پر اپنے گذشتہ کالموں میں میں ذکر کر چکی ہوں کہ کم از کم مجھے پی ڈی ایم کا لانگ مارچ سڑکوں پر آتا نظر نہیں آتا۔ پہلی وجہ کہ اگر کے پی اور پنجاب لوکل گورنمنٹ کی تاریخیں آ گئیں تو مارچ کرنا ناممکن ہے۔ دوئم، 23 مارچ کی تاریخ اپریل میں آنے والے ماہ رمضان کے انتہائی قریب ہے۔

بالفرض اگر مولانا فضل الرحمان لانگ مارچ اسلام آباد لے بھی آتے ہیں تو چند روز بعد ہی بوجۂ رمضان انہیں واپسی کی راہ اختیار کرنا پڑے گی۔ بہرحال میری ناقص رائے میں فی الحال پی ڈی ایم کا لانگ مارچ شاید ممکن نہ ہو۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہےکہ لانگ مارچ کے لیے لگ بھگ دو ماہ کا ہی عرصہ رہ گیا ہے لیکن مسلم لیگ ن کی طرف سے جماعتی سطح پر نہ تو کوئی ہلچل، نہ کوئی تیاری، نہ ورکر کو موبلائز کیا جانا حتی کہ نہ ہی رہنماؤں کے اندر لانگ مارچ سے متعلق کوئی واقعتاً جوش وخروش پایا جاتا ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ سے متعلق گمان مثبت ہے کہ وقوع پذیر ہو جائے لیکن ن لیگ اور مولانا کی عددی شرکت اور حاضری کے بنا اس لانگ مارچ کو بھی سیاسی نتائج کے اعتبار سے ادھورا سمجھا جائے اور غالب امکان ہے کہ اپنے لانگ مارچ سے حکومت گرانا تو درکنار، اتنا ضرور ہو گا کہ پیپلز پارٹی اپنی سٹریٹ پاور کا اچھا مظاہرہ کر پائے، ورکرز کو موبلائز کر لے اور حکومت پر مزید پریشر کا باعث بن سکے۔

فی الحال تو تمام تر اشارے اسی حاصل کا مظہر ہیں کہ عمران خان بطور وزیراعظم اپنی پنج سالہ آئینی جمہوری مدت پوری کریں۔۔۔۔۔ یہ مگر الگ بات کہ ہر گزرتے دن، مہینے اور سال میں کپتان کی گرفت حکومتی و انتظامی معاملات پر بظاہر کمزور پڑتی جائے، اندرونی دراڑیں مزید گہری اور واضح ہوتی جائیں اور آخرِکار کپتان حکومت تو بچا لیں مگر ساکھ بچانے میں شاید ناکام ٹھہریں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ