لاپتہ افراد کیس: ’ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے؟‘

صحافی مدثر نارو سمیت دیگر لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے دو لاپتہ بھائیوں کے حوالے سے اٹارنی جنرل سے سوال کیا جس کا وہ جواب نہ دے سکے۔

پاکستان پیراملٹری اہلکار18 اپریل 2013 کو  سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے باہر آتے ہوئے(اے ایف پی/فائل)

اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل کو صحافی مدثر نارو سمیت دیگر لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’جبری گمشدگیوں کے کیس میں بڑی مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟ یہ عدالت، وکیل صحافی یا کوئی اور تفتیش نہیں کر سکتا۔‘

دوران سماعت منگل کو لاپتہ طالب علموں کے والد نے عدالت کو بتایا کہ ’میرے دونوں بیٹے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور 2016 سے لاپتہ ہیں۔‘

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر جبری گمشدگیوں کے کمیشن کی ہدایات پر درج ہوئی۔

’جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں کہا کہ یہ جبری گمشدگیوں کا کیس ہے۔ میں نے ایک درخواست دی کہ ذمہ داری عائد کی جائے کہ یہ کس کا کام ہے؟‘

یہ روداد سننے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کیا جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دن دیہاڑے لوگوں کی موجودگی میں وفاقی دارالحکومت سے ان کے دو بچوں کو اٹھا لیا گیا۔ اٹارنی جنرل صاحب جواب دیں۔‘

اس پر اٹارنی جنرل نے بے بسی سے کہا کہ ’میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں‘ اور خاموش ہو گئے۔

یہ سن کر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں، تفتیش میں کیا ہوا؟‘

’سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ ایس ای سی پی کے ملازم کو بھی اٹھایا گیا تھا اس بیچارے نے تو کہا تھا کہ وہ شمالی علاقہ جات گیا تھا۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی دستیاب ہیں، کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں؟‘

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’یہ تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی بتا سکتے ہیں۔‘ یہ جواب سن کر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟

’یہاں سپریم کورٹ ہے، ہائی کورٹ ہے، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور انٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر ہیں۔ ایک ٹیسٹ کیس ہے  کہ اس عدالت کی حدود سے ایک شخص کو اٹھایا گیا اور اس کی تحقیقات میں کچھ نہ ہوا۔ یہ ایسی بات ہےکہ ریاست کو ہل جانا چاہئے تھا۔‘

اٹارنی جنرل خالد جاوید اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کے مابین طویل مکالمے میں چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایسے واقعات سے غیر ریاستی عناصر کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ بھی ایکٹو ہو جاتے ہیں۔

’عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے۔ یہ کورٹ کسی کو طلب کر کے کیا کہے گی؟ وہ کہے گا مجھے نہیں پتہ؟ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ لوگ جینوئن بھی غائب ہو سکتے ہیں لیکن اب ایسے واقعات کی وجہ سے لوگ ریاست پر شک کرتے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں لیکن وہاں لوگوں کا ریاست پر اعتماد ہوتا ہے۔ کمیشن نے جے آئی ٹی بنائی اور رپورٹ دے کر کہا کہ ان کی جان تو چھوٹ گئی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ ’گذشتہ تین ادوار نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے۔‘

اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ’اب آپ بتائیں کہ اس معاملے میں کیسے آگے بڑھا جائے؟‘

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’اگر ایک دفعہ کسی کو سزا ہو جائے تو یہ اچھا پیغام جائے گا، جس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہے اس کیس سے شروع کر لیتے ہیں۔‘

تین ادوار میں لوگ غائب کرنے کی پالیسی نہ ہونے کی نشاندہی کرنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان میں سے کسی نے لاپتہ افراد کے معاملے میں کارروائی نہیں کی بلکہ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ اس نے بندے اغوا کرائے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’وہ چیف ایگزیکٹو اشتہاری ہے، میں آخری تین منتخب وزرائے اعظم کی بات کرتا ہوں۔ ان وزرائے اعظم کی وہ پالیسی نہیں تھی جو کتاب والے صاحب کی تھی غاصب چیف ایگزیکٹو کو منتخب کے ساتھ نہ ملایا جائے۔ وہ تو مکا بھی دکھا رہے تھے اور اب مفرور ہیں۔‘

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ ’موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ ایسا بھی ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سپاہیوں کے سر چوراہوں پر لٹکائے جاتے تھے لیکن کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے۔‘

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ پھر بھی لوگ حراستی مراکز میں رکھے گئے، اس پر کیا کہیں گے؟ اب حکومت کیا کر رہی ہے؟ آئین اور قانون تو موجود ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’حراستی مراکز سے متعلق ایک قانون بنا تھا اور وہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا ہے اور اب ایک نیا قانون لایا جا رہا ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک واضح پیغام آنا چاہیے کہ اس معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’پتہ بھی تو چلے کہ یہ پیغام دینا کس کو ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاپتہ افراد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے عدالت میں موقف اپنایا کہ حراستی مراکز کا دورہ کرایا جائے تو لوگ بازیاب ہو سکتے ہیں۔

تو اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ حراستی مراکز میں سب شناخت شدہ لوگ ہیں، فیملیز ملتی بھی ہیں۔ پھر بھی اگر دورہ کرنے سے مدد ملتی ہے تو ہم تیار ہیں۔‘

وکیل انعام الرحیم نے جواباً کہا کہ ’بِلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ کیا ایک ایس ایچ او اپنے آئی جی کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے؟‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات نہ کریں، جس کی جو ذمہ داری ہے اسے ادا کرنا ہو گی۔

’اگر کوئی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر سکتا تو اسے عہدے سے ہٹ جانا چاہیے۔‘

عدالت نے جبری گمشدگیوں کے ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی فہرست اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیسز کی موثر تفتیش کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دی اور حتمی دلائل کے لیے سماعت 14 فروری تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان