اسلام آباد ہائی کورٹ میں مبینہ طور پر لاپتہ صحافی مدثر نارو کے کیس کی بدھ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’کسی کا لاپتہ ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔‘
مدثر محمود نارو ایک صحافی، شاعر، ترقی پسند مصنف اور رضا کار ہیں، جو 2018 سے لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ’وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں۔ لاپتہ شخص کی بازیابی کے لیے ریاست کا رد عمل افسوس ناک ہے۔ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔‘
عدالت عالیہ نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے عدالت طلب کر رکھا تھا، جو آج سماعت کے دوران پیش ہوئیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی وزیر کو مخاطب کرکے کہا: ’شیریں مزاری صاحبہ آپ کو اس لیے زحمت دی کہ ’ریاست نظر نہیں آ رہی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر اس عدالت میں کوئی بھی متاثرہ شخص آتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتہ ہوگیا تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔‘
جس پر وفاقی وزیر شیریں مزاری کا عدالت میں کہنا تھا کہ ’آپ نے پہلے بھی قیدیوں کے مسئلے پر طلب کیا تھا۔ جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہمارے منشور میں تھا۔‘
انہوں نے عدالت کو بتایا: ’ہم نے اس حوالے سے قانون سازی کی ہے، جسے سینیٹ میں جلد بھجوایا جائے گا۔ پرائم منسٹر بننے سے پہلے بھی عمران خان کا اس ایشو پر واضح موقف رہا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ریاست کی طرف سے کسی کو اغوا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ کسی آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا رد عمل کیا ہوگا؟ پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو پوری مشینری حرکت میں آ جائے گی۔ ریاست کا رد عمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے۔‘
تین سال سے لاپتہ صحافی مدثر نارو کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لاپتہ شخص کی اہلیہ بھی چل بسی ہیں۔ تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں۔ لاپتہ شہری مدثر کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ فیملی کو سنے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’بچے اور مدثر کی والدہ کو وزیراعظم کے پاس لے کر جائیں، کابینہ ارکان سے ملاقات کرائیں۔‘
شیریں مزاری نے عدالت کو مزید بتایا کہ ’بیان حلفی ابھی تک نہیں ملا، اس کے مطابق اخراجات کی ادائیگی کے لیے پراسیس کریں گے۔ وزیراعظم ان کو ضرور سنیں گے، پہلے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے لیے اخراجات کی ادائیگی کا بھی پراسیس مکمل کر لیں، اس کے بعد لاپتہ شخص کے کمسن بچے اور دادی کی وزیراعظم سےملاقات کروائی جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’اس سے پہلے آئندہ ہفتے تک انہیں معاوضے کی رقم کی ادائیگی کا پراسیس مکمل کرنے دیں۔ ہماری حکومت جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتی ہے۔ جمہوریت میں کسی کو لاپتہ کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔‘
چیف جسٹس نے وفاقی وزیر سے کہا: ’آپ کوشش کریں کہ یہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہو کرواپس آئیں۔ لاپتہ افراد کی ذمہ داری تو وزیراعظم اور کابینہ ارکان پر آتی ہے۔ ریاست کی بجائے معاوضے کی رقم وزیراعظم اور کابینہ ارکان کیوں نا ادا کریں؟ تاکہ یہ معاملہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔‘
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی 2002 میں لاپتہ ہوا تو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرا کر اسے ازالے کی رقم ادا کرنے کا کیوں نہ کہا جائے؟ جبری گمشدگیوں میں صرف سٹیٹ ہی نہیں نان سٹیٹ ایکٹرز بھی آتے ہیں۔ کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ اگر کوئی ایک لاپتہ ہو جائے تو اس کا پورا خاندان برداشت کرتا ہے۔‘
شیریں مزاری نے کہا کہ ’آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔ ریاست کا رد عمل ہرمسنگ پرسن کیس میں ایک جیسا ہونا چاہیے۔ سابقہ حکومتوں نے اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ہم کر رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو ورنہ اس کو نہیں روکا جا سکتا۔ ہماری آدھی زندگی نان ڈیموکریٹک حکومتوں میں گزری اور یہ انہی کا کیا کرایا ہے۔‘
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’جس دورمیں کوئی لاپتہ ہوا، اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کی جیب سے معاوضہ کیوں نہ لیا جائے؟‘ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر شیریں مزاری سے اس سوال پر آئندہ سماعت پر جواب طلب کرکے کیس کی سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
مدثر نارو کون ہیں؟
صحافی اور شاعر مدثر نارو سال 2018 سے لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
مدثر 2018 میں خیبر پختونخوا کے علاقے بالاکوٹ سے مبینہ طور پر لاپتہ ہوئے تھے۔
وہ وہاں اپنی اہلیہ صدف اور چھ ماہ کے بیٹے کے ہمراہ سیر و سیاحت کی غرض سے گئے تھے۔
رواں برس مئی میں مدثر نارو کی اہلیہ صدف کا دل کے دورے کے باعث انتقال ہو گیا تھا، جس کے بعد مدثر کی بازیابی کے لیے بلند ہونے والی آوازوں میں شدت آ گئی ہے۔ ان کی معمر والدہ اور تین سالہ بیٹا اب انصاف کے لیےعدالت کے چکر لگا رہے ہیں۔