انخلا کے دوران امریکی فوجیوں کو پکڑایا گیا دو ماہ کا بچہ اب تک لاپتہ

مرزا علی احمدی نے 19 اگست کو کابل ہوائی اڈے پر افراتفری کے دوران اپنے دو ماہ کے بیٹے سہیل کو کچلے جانے سے بچانے کے لیے باڑ کے پار امریکی فوجی کو پکٹرا دیا۔ اس کے بعد سے ہی وہ اپنے بچے کو ڈھونڈ رہے ہیں۔

دو ماہ کے سہیل کو آخری بار 19 اگست کو کابل ہوائی اڈے پر دیکھا گیا۔ صورت حال سے واقف ایک امریکی عہدے دار نے کہا کہ تمام متعلقہ اداروں کو اس معاملے سے آگاہ کر دیا گیا ہے (مرزا علی، ہینڈ آؤٹ، روئٹرز)

یہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں کیا جانے والا فیصلہ تھا۔ مرزا علی احمدی اور ان کی اہلیہ ثریا نے اپنے آپ کو 19 اگست کو کابل کے ہوائی اڈے کے دروازوں کے باہر افراتفری کے شکار میں ہجوم میں پایا۔ بلند باڑ کی دوسری جانب سے امریکی فوجی نے ان سے پوچھا کہ آیا انہیں مدد کی ضرورت ہے۔

اس خوف سے کہ اس کا دو ماہ کا بچہ سہیل ہجوم میں کچلا نہ جائے، جوڑے نے بچے کو امریکی فوجی کے حوالے کر دیا۔ میاں بیوی کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی ہوائی اڈے کے داخلی راستے پر پہنچ جائیں گے جو محض پانچ میٹر کے فاصلے پر تھا لیکن مرزا علی کے مطابق اسی لمحے امریکی انخلا کے بعد تیزی سے اقتدار سنبھالنے والے طالبان نے ملک سے نکلنے کی امید رکھنے والے سینکڑوں افراد کو پیچھے دھکیل دیا۔ ان حالات میں مرزا علی کے خاندان کو ہوائی اڈے کی باڑ کی دوسری جانب جانے میں آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا۔ وہ ہوائی اڈے کے اندر پہنچے تو انہیں سہیل کہیں دکھائی نہیں دیا۔

مرزا علی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے 10 سال امریکی سفارت خانے میں سکیورٹی گارڈ کے فرائض انجام دیے۔ ہوائی اڈے میں انہیں جو بھی اہلکار ملا انہوں نے اس سے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھا۔ ایک فوجی کمانڈر نے انہیں بتایا کہ ہوائی اڈا ایک بچے کے لیے بہت خطرناک ہے اور ہو سکتا ہے کہ بچے کو دوسرے بچوں کے لیے مخصوص حصے میں منتقل کر دیا گیا ہو۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو وہ خالی تھا۔

مرزا علی نے مترجم کے ذریعے کیے جانے والے انٹرویو میں بتایا: ’فوجی کمانڈر نے پورے ہوائی اڈے میں میرے ساتھ چل کر بچے کو ہر جگہ تلاش کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہیں کمانڈر کا نام کبھی پتا نہیں چلا۔ انگریزی نہ بولنے والے مرزا علی نے رابطے کے لیے امریکی سفارت خانے میں کام کرنے والے افغان ساتھیوں پر انحصار کیا۔ تین دن گزر گئے۔ مرزا علی کے بقول: ’ہو سکتا ہے کہ میں نے 20 سے زیادہ لوگوں سے بات کی ہو۔ ہر افسر چاہے وہ فوجی ہو یا سویلین، میں جس سے بھی ملا اس سے سے اپنے بچے کے بارے میں پوچھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جن سویلین حکام کے ساتھ انہوں نے بات کی ان میں سے ایک نے انہیں بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ سہیل کو افغانستان سے باہر اکیلے ہی بھیج دیا گیا ہو۔ مزرا نے بتایا کہ سویلین اہلکار نے کہا کہ ’یہاں ہمارے پاس بچے کو رکھنے کے وسائل نہیں ہیں۔‘

35 سالہ مرزا علی، ان کی 32 سالہ اہلیہ ثریا اور ان کے دوسرے تین بچوں کو افغانستان سے نکال کر طیارے کے ذریعے قطر بھجوا دیا گیا جس کے بعد وہ جرمنی اور بالآخر امریکہ پہنچ گئے۔ اب یہ خاندان دوسرے افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ریاست ٹیکساس میں واقع فورٹ بلس میں قیام پذیر ہے۔ یہ افغان پناہ گزین امریکہ کے کسی دوسری علاقے میں آباد کیے جانے کے انتظار میں ہیں۔ یہاں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں۔

مرزا علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے کابل ہوائی اڈے کے باہر دوسرے خاندانوں کو دیکھا تھا جو اپنے بچوں کو باڑ کی دوسری طرف موجود فوجیوں کے حوالے کر رہے تھے۔ ڈائپر لگائے ایک بچی کی ویڈیو جسے بازو سے پکڑ کر اوپر اٹھایا گیا تھا سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد بچی کو والدین کے حوالے کر دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرزا علی کے مطابق جب سے ان کا بچہ لاپتہ ہوا تاریخیں دھند لا چکی ہیں۔ ان کی جس سے بھی ملاقات ہوتی ہے چاہے وہ امدادی کارکن ہوں یا امریکی حکام وہ انہیں سہیل کے بارے میں بتاتے ہیں۔ مرزا علی کے بقول: ’ہر کوئی وعدہ کرتا ہے کہ وہ پوری کوشش کریں گے لیکن یہ محض وعدے ہی ہیں۔‘

افغان پناہ گزینوں کی مدد کرنے والے ایک گروپ نے سہیل کی تصویر کے ساتھ ’لاپتہ بچے‘ کا پوسٹر تیار کیا جسے انہوں نے اپنے نیٹ ورکس پر اس امید کے ساتھ پھیلایا کہ کوئی بچے کو پہنچان لے گا۔ صورت حال سے واقف ایک امریکی عہدے دار نے کہا کہ تمام متعلقہ اداروں کو اس معاملے سے آگاہ کر دیا گیا ہے جن میں امریکی فوجی اڈے اور سمندر پار مقامات شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے کو آخری بار کابل ہوائی اڈے پر افراتفری میں دیکھا گیا لیکن ’بدقسمتی سے کوئی بچے کو تلاش نہیں کر سکا۔‘

امریکی محکمہ دفاع اور ترجمان ہوم لینڈ سکیورٹی، جو افغان پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادی کاری کی کوششوں کی  نگرانی کر رہا ہے، نے افغانستان میں سہیل کی والدین سے علیحدگی کے بعد سوالات دفتر خارجہ کو بھجوانے کا کہا کیونکہ بچہ بیرون ملک لاپتہ ہوا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت بین الاقوامی شراکت داروں اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ ’بچے کو ہر جگہ تلاش کیا جائے۔ ان کوششوں میں لاپتہ اور استحصال کا شکار بچوں کے لیے عالمی مرکز کے ذریعے جاری کیا گیا الرٹ بھی شامل ہے۔‘

سہیل کی ماں ثریا نے بھی مترجم کی مدد سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ زیادہ تر روتی رہتی ہیں اور ان کے دوسرے بچے پریشانی کا شکار ہیں۔ ثریا کے بقول: ’میں اپنے بچے کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ میری والدہ، والد اور بہن جو بھی مجھے کال کرتے ہیں وہ سب مجھے تسلی دیتے ہیں اور کہتے ہیں پریشان نہ ہو اللہ خیر کرے گا تمہارا بیٹا مل جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا