’وقت ہمارے حق میں نہیں تھا‘: افغانستان کے لیے امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد مستعفی

وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو لکھے گئے ایک خط میں خلیل زاد نے اپنے ریکارڈ کا دفاع کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ وہ امریکہ کی ’افغانستان پالیسی کے نئے مرحلے‘ کے دوران الگ ہونا چاہتے ہیں۔

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد، جنہوں نے کئی مہینوں تک سفارت کاری کے ذریعے افغانستان میں امریکی جنگ کے خاتمے میں مدد کی لیکن طالبان کو اقتدار میں آنے سے روکنے میں ناکام رہے، نے پیر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو لکھے گئے ایک خط میں خلیل زاد نے اپنے ریکارڈ کا دفاع کیا لیکن ساتھ ہی تسلیم کیا کہ وہ آگے نہیں جاسکتے اور کہا کہ وہ امریکہ کی ’افغانستان پالیسی کے نئے مرحلے‘ کے دوران الگ ہونا چاہتے ہیں۔

انہوں نے لکھا: ’افغان حکومت اور طالبان کے مابین سیاسی انتظام توقعات کے مطابق آگے نہیں بڑھا۔ اس کی وجوہات بہت پیچیدہ ہیں اور میں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اپنے خیالات شیئر کروں گا۔‘

افغانستان میں پیدا ہونے والے 70 سالہ امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے قریبی ساتھی کے طور پر سینیئر عہدوں پر فائز رہے۔ وہ کابل اور بغداد کے علاوہ اقوام متحدہ میں بھی امریکی سفیر بنے۔

جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکہ کی طویل ترین جنگ ختم کرنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ خلیل زاد کو واپس لائے، جنہوں نے کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کو شامل کیے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کی۔

ان مذاکرات کے نتیجے میں فروری 2020 کا معاہدہ ہوا، جس میں اگلے سال (2021) میں امریکی افواج کے انخلا کی بات کی گئی تھی۔

لیکن طالبان اور افغان قیادت کے مابین امن مذاکرات ناکام ہوئے اور 20 سالوں میں امریکہ کی جانب سے بنائی گئی افغان حکومت غیرملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی چند دن میں بکھر گئی۔

افغانستان کی زبان اور رسم و رواج سے واقف زلمے خلیل زاد ایک غیر معمولی امریکی سفارت کار تھے، جو طالبان رہنماؤں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے قابل تھے، جن کی حکومت 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد القاعدہ کی حمایت پر امریکہ نے گرا دی تھی۔

تاہم ری پبلکنز سے وابستگی کے باوجود زلمے خلیل زاد کو اس وقت برقرار رکھا گیا جب ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کو شکست دی اور افغانستان سے انخلا کے فیصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خلیل زاد جلد ہی تنقید کا نشانہ بن گئے، جن میں بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ اگرچہ بطور انسان اور شخصیت زلمے خلیل زاد کے لیے احترام کا اظہار کیا گیا لیکن 2020 میں ہونے والے معاہدے کے پیچھے ان کی سفارت کاری کو غلط قرار دیا گیا۔

خلیل زاد کا استعفیٰ منظر عام پر آنے سے کچھ دیر قبل محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکہ منگل کو روس کی طرف سے بلائے جانے والے افغانستان کی صورت حال پر نئے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے گا جس میں چین اور پاکستان اور طالبان بھی شامل ہیں۔

’افغانستان کی فروخت کا الزام‘

ٹرمپ کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کی مخالفت ختم کرنے کے بعد، خلیل زاد نے امارت اسلامی کے شریک بانی ملا برادر کی پاکستانی جیل سے رہائی میں کردار ادا کیا اور ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آئے، جو وعدوں کو پورا کر سکتا ہے اور مہینوں تک طالبان کے ساتھ قطری دارالحکومت دوحہ میں ایک لگژری ہوٹل میں گزارا کرسکتے ہیں۔

لیکن طالبان کے ساتھ مسکراتے ہوئے ان کی تصاویر نے انہیں کابل میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جہاں اشرف غنی کی معزول حکومت کے کچھ ارکان سمیت دیگر لوگوں نے بھی ان پر تنقید کی اور ان پر افغانستان کو فروخت کرنے کا الزام لگایا۔

گذشتہ ماہ ایک انٹرویو میں خلیل زاد نے کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچ گئے تھے، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ (طالبان) کابل سے باہر رہیں گے اور سیاسی تبدیلی پر بات چیت کریں گے، لیکن یہ معاہدہ تب ختم ہوا جب 15 اگست کو صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے اور طالبان نے ایک سکیورٹی خلا دیکھ کر اسے پُر کیا۔

’وقت ہمارے حق میں نہیں تھا‘

جریدے ’فارن پالیسی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے خلیل زاد نے کہا کہ طالبان نے فروری 2020 کے معاہدے کے اہم نکات پر عمل کیا تھا، جس میں امریکی فوجیوں پر حملہ نہ کرنا بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا: ’میں ان لوگوں کا احترام کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہمیں وہاں موجود حکومت کے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے چاہیے تھے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ طالبان کو اس بات پر راضی کرنے کے لیے مزید کتنی لڑائی کرنی پڑتی۔‘

ان کے مطابق افغانستان میں اپنی طویل ترین جنگ میں مزید امریکی فوجیوں کو نہ بھیجنے کے خیال کے ساتھ ’ہر سال ہم طالبان سے شکست کھا رہے تھے۔‘

’وقت ہمارے حق میں نہیں تھا۔‘

واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی، جو اب ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو ہیں، نے کہا کہ خلیل زاد اس حوالے سے ناکام رہے کہ انہوں نے ’امریکی انخلا کو امن کے ساتھ تعبیر کیا۔‘

حقانی نے کہا: ’خلیل زاد نے کابل کی چابیاں طالبان کے حوالے کر دیں، ان وعدوں کے بدلے جن کے بارے میں سب جانتے تھے کہ طالبان پورا نہیں کریں گے۔‘

نئے ایلچی؟

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ زلمے خلیل زاد کے نائب تھامس ویسٹ اب خصوصی ایلچی کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

ویسٹ بائیڈن کے دیرینہ معاون ہیں اور جب وہ نائب صدر تھے تو وہ ان کے عملے میں شامل تھے۔ تھامس ویسٹ نے کئی سال جنوبی ایشیا کی پالیسی پر کام کیا ہے جس میں امریکہ بھارت سویلین جوہری معاہدہ بھی شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ