تمام افغان نزلہ زلمے خلیل زاد پر

افغانستان میں سوشل میڈیا پر #khalilzad ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ افغان صارفین ان پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال کی تمام تر ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔

زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ امریکی امن معاہدے کی روح رواں تھے(اے ایف پی)

افغانستان میں موجودہ پرتشدد حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر کسی افغان سے پوچھیں تو ان کے مطابق دائمی وجہ پاکستان کے علاوہ وہ آج کل امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد پر تمام غصہ اتار رہے ہیں۔

افغانستان میں سوشل میڈیا پر #khalilzad ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ افغان صارفین ان پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال کی تمام تر ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ اس میں سرکاری میڈیا بھی کسی صورت پیچھے نہیں۔ سرکاری افغان ٹی وی اور ریڈیو آر ٹی اے نے واشنگٹن ایگزامنر اخبار کا ایک مضمون دری میں ترجمہ کر کے شیئر کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ زلمے خلیل زاد سے ان کی ذمہ داری واپس لی جائے۔

تین برس قبل اس وقت کے وزیر خارجہ مائک پامپیو نے زلمے خلیل زاد کے وزارت خارجہ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد بقول ان کے ’مصالحتی عمل میں مدد‘ تھا۔ افغانستان میں پیدا ہونے والے پختون خلیل زاد کو اس وقت ایک قدرتی انتخاب مانا گیا۔

مائیکل روبن نے اس مضمون میں لکھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے تمام تر عرصے کے دوران انہوں نے یہ دعوی کیا کہ اسلامی تحریک تبدیل ہوچکی ہے۔ پھر ان پر امریکی انتظامیہ کے ٹیکس کے پیسے پر سب سے زیادہ سفر کرنے والے اہلکار بھی قرار پائے۔

مصنف نے لکھا کہ اب وقت ہے کہ خلیل زاد کو واپس بلا لیا جائے کیونکہ انہوں نے اس مصالحتی عمل کا کنٹرول کھو دیا ہے۔ اس کی بجائے انہیں اب وقت امریکی سینٹ کے سوالات کے جواب دینے میں گزارنے چاہییں کہ یہ تمام عمل اس نوبت کو کیسے پہنچا۔

ٹوئٹر پر ایک افغان صارف بشیر احمد قصانی لکھتے ہیں کہ زلمے خلیل زاد کو برطرف کر دیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک میڈیا ایکٹویسٹ حامد علمی کی ان کے خلاف مہم کو سب کو سپورٹ کرنا چاہیے۔

 

دلچسپ بات یہ ہے کہ زلمے خلیل زاد بھی کچھ عرصے سے پس منظر میں ہیں۔ ان کے ٹوئٹر اکاونٹ پر بھی آخری ٹویٹ 4 اگست کے بعد کی نہیں ہیں۔ وہ بھی ان کے وائس آف امریکہ اور ریڈیو آزادی کو انٹرویوز سے متعلق ہے جس میں انہوں نے افغان رہنماؤں سے جلد کسی امن معاہدے پر پہنچنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک اور افغان صارف ہارون مبارز نے امریکی سینٹ سے انہیں طلب کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ انہیں تمام تر ’فراڈ‘ پر مبنی معاہدوں کی بابت پوچھ گچھ ہوسکے۔

زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ امریکی امن معاہدے کی روح رواں تھے۔ اس وقت کئی لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے بغیر شاید امریکہ اور طالبان کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہو پاتا۔ لیکن اب تمام تر توپوں کا رخ ان کے طرف ہوچکا ہے۔ انہوں نے گذشتہ دنوں ایک بیان میں کہا کہ اب یہ ضروری ہے کہ حکومت طالبان کی پیش قدمی کو ’فوجی طریقے‘ سے حل کرنے کی کوشش کرے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ