افغان امن عمل کا اگلا مرحلہ شرائط پر مبنی ہوگا: زلمے خلیل زاد

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان امریکہ امن معاہدے کو 135 دن ہو چکے ہیں جو ایک سنگ میل ہے۔

  زلمے خلیل زاد   کے مطابق امریکہ نے معاہدے کے تحت پہلے مرحلے کے وعدے پورے کرنے کے لیے بہت محنت سے کام کیا ہے(اے ایف پی)

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان امریکہ امن معاہدے کو 135 دن ہو چکے ہیں جو ایک سنگ میل ہے۔

انہوں نے منگل کو اپنے ٹوئٹر پیغامات میں کہا کہ امریکہ نے معاہدے کے تحت پہلے مرحلے کے وعدے پورے کرنے کے لیے بہت محنت سے کام کیا ہے، جس میں فوجیوں کی تعداد میں کمی اور پانچ اڈے خالی کرنا شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب افغانستان میں اتحادی فوجیوں کی تعداد کم ہو کر ایک تناسب میں آ گئی ہے۔ 'قیدیوں کی رہائی اگرچہ سست روی کا شکار ہے اس کے باوجود اس میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان بات چیت میں افغان فریقوں کے درمیان مذاکرات کے طریقے کے حوالے سے بھی پیش رفت ہوئی ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں کسی امریکی کی جان نہیں گئی اور علاقائی سطح پر تعلقات میں بہتری آئی ہے لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مزید تعاون کی ضرورت ہے۔

زلمے خلیل زاد نے کہا کہ خاص طور پر حالیہ دنوں اور ہفتوں میں پرتشدد کارروائیاں زیادہ ہو رہی ہیں۔ 'افغان شہری کسی وجہ کے بغیر بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں طالبان کا آج کا حملہ افغان فریقوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے مستقل جنگ بندی ہونے تک ان کے تشدد میں کمی کے وعدے کی خلاف ورزی ہے۔ ہم اس حملے کی مذمت کرتے ہیں۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'صوبائی دارالحکومت میں گاڑی میں بم رکھ کر کیا گیا بڑا دھماکہ قابل قبول نہیں۔ اس سے وہ عناصر مضبوط ہوں گے جو امن کے مخالف ہیں اور فسادیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ تمام فریقوں کو تشدد میں کمی لانی ہو گی۔'

زلمے خلیل زاد کے مطابق: 'ہماری نظر معاہدے پر عمل درآمد کے اگلے مرحلے پر ہے۔ ہمارے اقدامات مشروط رہیں گے۔ ہم قیدیوں کی رہائی، تشدد میں کمی، جامع معاہدے کی شرائط پر مکمل عمل درآمد اور افغان فریقوں کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت کے آغاز پر زور دیں گے۔'

'معاہدے پر مکمل عملدرآمد سے قبل جنگ بندی کا مطالبہ غیرمنطقی'

اس سے قبل افغان طالبان نے امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدے کے طے ہونے کے بعد اس پر مکمل عمل درآمد ہونے سے قبل جنگ بندی کے مطالبے کو غیر منطقی قرار دیا تھا۔

افغان طالبان کےجنگی امور کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا تھا کہ ’افغان طالبان کے پاس جنگ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ دوحہ معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ضروری ہے کیونکہ ہم جنگ کو کم کر کے ختم کرنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔‘

افغان طالبان کے ترجمان نے یہ بات رواں سال فروری میں دوحہ میں منعقدہ افغانستان امن مذاکرات میں طے پانے والی شرائط کے تناظر کہی۔ یاد رہے کہ رواں سال فروری کے آخر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معادہ طے پایا تھا۔

ایک طویل عرصے سے جنگ زدہ ملک افغانستان میں جنگ بندی کے حوالے سے مختلف ادوار میں مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ امن مذاکرات کس حد تک کارگر ثابت ہوسکتے ہیں اور ان کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں؟

اس حوالے سے افغان صدر کے سابق ترجمان اور تجزیہ کار نجیب اللہ آزاد سمجھتے ہیں کہ امن مذاکرات کے لیے سٹریٹجی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ نجیب اللہ آزاد کے کہتے ہیں کہ جب امن کے حوالے سے معاہدے کسی فرد کے وژن کے تحت ہوں تو ان کا نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے جو ہم  دوحہ امن مذاکرات کا دیکھ رہے ہیں۔

ان کے مطابق طالبان ترجمان کا یہ سیاسی بیان طالبان میں دھڑے بندی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان کی اس ٹویٹ سے بین الاقوامی امن مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ عملاً افغانستان میں جنگ جاری ہے۔

نجیب اللہ آزاد نے مزید کہا کہ رواں سال فروری کے مہینے میں طالبان اور امریکہ کے درمیان جو معاہدہ طے پایا وہ ایک فرد کے وژن کے تحت ہوا اور اس میں افغان حکومت کی نمائندگی ہی نہیں تھی۔

طالبان ترجمان نے اپنی ٹویٹ مزید لکھا کہ افغان حکومت قیدیوں کو جلد از جلد رہا کرے تاکہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔ 

قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے افغان صدر کے سابق ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں فریقین کے پاس قیدی موجود ہیں اور زیادہ تر قیدی افغان حکومت کے پاس ہیں جن میں اکثریت طالبان کی ہے۔

نجیب اللہ آزاد کے مطابق طالبان نے جو قیدی رہا کیے ہیں وہ عام شہری ہیں اگر دونوں فریقین پر قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے دباؤ بڑھے گا تو اس کا اثر مذاکرات پر پڑ سکتا ہے جس کا نقصان افغان عوام کو ہوگا۔

واضح رہے کہ افغان حکومت نے سنگین مقدمات میں گرفتار افغان طالبان جنگجوؤں کے چھ سو کے قریب قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

نجیب آزاد نے بتایا کہ اگر بین الاقوامی امن مذاکرات معطل ہو جاتے ہیں تو اس کا افغانستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ افغانستان نے جنگ سے جتنا نقصان اٹھانا تھا اٹھا چکا ہے اور جنگ اپنی شدت کے ساتھ جاری ہے۔

دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ایوب ترین طالبان کے اس بیان کو دباؤ بڑھانے کی تکنیک سمجھتے ہیں۔ 

ایوب ترین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بھی جب امریکہ اور طالبان میں امن معاہدہ ہوا تو افغان حکومت نے کہا تھا کہ وہ طالبان قیدی رہا نہیں کرے گی کیونکہ وہ اس معاہدے کے پابند نہیں ہوں گے  لیکن اس کے بعد دونوں فریقین قیدی رہا کرنے پر رضا مند ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایوب ترین سمجھتے ہیں کہ پاکستان سمیت امریکہ اور پوری دنیا کی خواہش ہے کہ بین الاقوامی مذاکرات کے ذریعے ہی افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہے۔ 

واضح رہے کہ افغان طالبان کے دو ونگ ہیں جن میں سیاسی ونگ کی ترجمانی سہیل شاہین، ملابرادر اور ملا عباس کرتے ہیں جب کہ جنگی امور کی ترجمانی ملا ذبیح اللہ مجاہد کرتے ہیں۔ ایوب ترین کے مطابق نائن الیون کے بعد جس طرح پاکستان متاثر ہوا اور 60 ہزار شہری مارے گئے اس کے بعد پاکستان نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں امن کے قیام کا معاملہ طول پکڑے۔

نجیب اللہ آزاد کے مطابق بھی افغانستان میں اگر جنگ جاری رہتی ہے تو نہ صرف  اس کا نقصان افغانستان کو ہوگا بلکہ اس کا اثر ہمسایہ ممالک سمیت پوری دنیا پر پڑے گا، کیونکہ جنگ کبھی محدود جغرافیے میں  نہیں رہتی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا