رواں ماہ 20 جنوری کو ایک غیر معروف بلوچ علیحدگی پسند گروپ بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) نے لاہور کے مصروف انارکلی بازار میں دیسی ساختہ بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی۔ دھماکے میں تین افراد ہلاک اور 28 زخمی ہوئے۔
انارکلی بازار میں ہونے والا بم دھماکہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ہاتھوں اسلام آباد میں پولیس اہلکار کا قتل اور ملک کے دیگر حصوں میں حملوں کا سلسلہ پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے گہری جڑیں رکھنے والی مذہبی عسکریت پسندی، نسلی بنیادوں پر علیحدگی پسندی اور ایک غیر مستحکم اور دشمن پڑوس کا سامنا کرتے ہوئے دہشت گرد حملوں میں اچانک اضافہ معمول کی بات ہے۔
تاہم بڑھتے ہوئے حملوں کے انداز کو سمجھنے اور تدبر کے ساتھ جواب دینے کے علاوہ ہمیں ان گروپوں کے داخلی طریقہ کار اور باہمی روابط کے بارے میں گہری سوجھ بوجھ پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان سے نمٹنے کے لیے سٹریٹیجک پالیسی وضع کی جا سکے۔ اس ضمن میں بی این اے کے وجود میں آنے کی خارجی اور داخلی وجوہات اور اس کے وجود میں آنے کی اہمیت پر غور کرنا ضروری ہے۔
بلوچ عسکریت پسندی کے منظر نامے پر بی این اے کے ابھرنے کے بیرونی عوامل یہ ہیں۔ بی آر اے اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی آئی) کے درمیان انضمام کے نتیجے میں 11 جنوری کو بی این اے کے وجود میں آنے کی بنیاد پاکستان کے عسکریت پسند اور دہشت گرد گروپوں میں داخلی سطح پر دوبارہ متحد ہونے کے عمل اور ان گروپوں کے درمیان جاری اتحادی سازی کے وسیع تر تناظر میں ہونی چاہیے۔ اس لحاظ سے بی این اے کا قیام پاکستان میں خطرے کے منظرنامے میں جاری رجحانات سے مطابقت رکھتا ہے۔
2018 کے بعد سے ٹوٹ پھوٹ، داخلی لڑائیوں اور تنظیم کو چھوڑنے کے عمل نے نظریاتی میدان میں انضمام، دوبارہ اتحاد اور اتحاد سازی کی راہ ہموار کی۔ مثال کے طور پر 2018 میں چار بلوچ علیحدگی پسند گروپوں یعنی ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ رپبلکن آرمی (بی آر اے) کے گلزار امام دھڑے، بلوچ لبریشن آرمی کے بشیر زیب دھڑے اور بختیار ڈومکی کے بلوچ رپبلکن گارڈ (بی آر جی) کو ضم کر کے بلوچ راجی اجوئی سنگر (بی آر اے ایس، براس) قائم کیا گیا۔
اس کے بعد جولائی 2020 میں براس نے پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے خلاف سندھی نسلی قوم پرست گروپ سندھودیش ریولوشنری آرمی کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ اسی طرح اگست 2020 سے 11 سے زیادہ عسکریت پسند دھڑے دوبارہ ٹی ٹی پی میں شامل ہو چکے ہیں۔
انضمام کے نتیجے میں دو یا زیادہ عسکریت پسند گروپ اپنی کمان اور کنٹرول کے نظام، مالی وسائل، ہتھیاروں، افرادی قوت اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو یکجا کر لیتے ہیں۔اسی طرح وہ اپنے شناختی نشان اور بیانیے کو چھوڑ کر نئی شناخت اپنا لیتے ہیں۔
مزید برآں عسکریت پسندوں کے انضمام کی حد حکمت عملی اور موقعے کی مناسبت سے لے کر لین دین تک ہوتی ہے اور اس کی عمر بھی اتحاد کی نوعیت اور حالات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ بی این اے کی تشکیل کے بعد 11 جنوری کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’(یہ) بلوچ مزاحمت کو مزید وسعت دینے اور اسے متحد کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔‘
یہ بھی اعلان کیا گیا کہ بی این اے، براس کا حصہ رہے گی۔ بیان میں مرید بلوچ عرف سرفراز بنگلزئی کو بی این اے کا واحد ترجمان اور ’باسک‘ کو اس کا باضابطہ چینل بتایا گیا۔ حملوں کو منظم کرنے اور ان کی منصوبہ بندی کے لیے بی این اے کی مرکزی کمان کونسل بھی بنائی گئی ہے۔
بی این اے اور براس کے درمیان دکھائی دینے والا فرق ان کے آپریشن کے شعبے، آپریشنل حکمت عملی اور اہداف کا انتخاب ہے۔ عام طور پر براس کی توجہ بلوچستان اور کراچی میں سٹریٹجک اہداف پر رہی ہے۔ مزید برآں براس پاکستانی سکیورٹی فورسز یا چینی منصوبوں جیسے مشکل اہداف کو نشانہ بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
دوسری جانب بی این اے نے نے جس حملے کا پہلا بار باضابطہ دعویٰ کیا وہ ایک آسان ہدف تھا یعنی لاہور میں بینک الحبیب۔ اس گروپ نے پاکستان کے بڑے صنعتی شہروں میں مزید حملوں کی دھمکی دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی این اے عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے، شہرت کے حصول، نئی بھرتیوں اور فنڈنگ کو متوجہ کرنے کے لیے آسان اہداف کو نشانہ بناتے ہوئے شہری مراکز پر توجہ دے گی۔ نمایاں ہونے کے لیے دور دراز کے علاقوں کے مقابلے میں شہروں میں کیے گئے حملے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔
بی این اے کے ابھرنے کے چار داخلی عوامل ہیں۔
پہلا یہ کہ بلوچ عسکریت پسندی کا مرکز زیادہ تر بگٹی، مری اور مینگل قبائل سے تعلق رکھنے والے سرداروں سے بلوچستان کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ بی ایل اے کے حربیار مری، بی آر اے کے برہمداغ بگٹی اور یو بی اے کے مہران مری یورپ میں مقیم ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں اور بالادستی کے رویوں کی وجہ سے بی ایل اے، بی آر اے اور یو بی اے کے مقامی کمانڈروں نے اپنے مقامی دھڑے بنا لیے ہیں۔
مقامی بلوچ کمانڈر یورپ میں مقیم قبائلی رہنماؤں پر اپنے گروپوں کو قبائلی جاگیروں کی طرح چلانے، انہیں منافع بخش ادارے بنانے اور کمانڈروں اور جنگجوؤں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے نئے اتحادوں اور انضمام میں بلوچ قبائلی سرداروں کی موجودگی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
بی این اے جیسے گروپوں کا قیام قبائلی نظام کے سائے سے باہر نکلنے اور بلوچ علیحدگی پسند تحریک کو جدید خطوط پر چلانے کی ایک دانستہ کوشش ہے، جس میں پڑھے لکھے متوسط طبقے نے نئی مرکزیت قائم کی ہے۔ مزاحمت کرنے والے بلوچوں کی یہ نئی نسل سوشل میڈیا سے واقف اور سیاسی طور پر ہوشیار ہے۔اس کے کاندھوں پر قبائلی وفاداریوں کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔
ایک طرح سے مقامی متوسط طبقے کے بلوچ کمانڈر سخت گیر ہیں جن کا ماننا ہے کہ یورپ میں مقیم قبائلی قیادت نسلی علیحدگی پسندی کے معاملے میں محض زبانی جمع خرچ کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ گذشتہ سالوں کے دوران یورپ میں مقیم رہنما محتاط اور سوچ سے عاری ہو چکے ہیں اور صورت حال کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ بلوچ مزاحمتی جدوجہد میں ایک نئے باب کا آغاز کیا جائے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ غیر قبائلی بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں نے قبائلی سرداروں کے دوغلے پن اور منافقت کے بارے میں بات کی ہے۔ انہوں نے ان سے کہا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو اسی طرح نشانہ بنائیں جس طرح انہوں نے دوسرے اعتدال پسند بلوچ قوم پرستوں کو انتخابات میں حصہ لینے اور پاکستانی آئینی فریم ورک کے اندر رہنے کی وجہ سے مارا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ جب یورپ میں مقیم بلوچ قبائلی سردار اپنے خاندانوں کے ساتھ پرتعیش زندگی گزار رہے تھے تو ان کے بھائی اور کزن پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ ان حالات میں غیر قبائلی بلوچ علیحدگی پسند جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے اور انہیں ریاست کی انتہائی نوعیت کی جوابی کارروائیوں کا سامنا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیسری بات یہ ہے کہ بی آر اے اور یو بی اے کے انضمام کی ایک اور وجہ افغانستان سے امریکی انخلا ہے جس نے وہاں بلوچ عسکریت کے لیے جگہ کم کر دی ہے، اس لیے مختلف گروپ اپنی بقا اور عسکریت پسندی جاری رکھنے کے لیے انضمام کر رہے ہیں یا اتحاد بنا رہے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ جب تک بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ سابق افغان خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے ساتھ مل کر افغانستان سے کام کر رہا تھا اس وقت تک متعدد علیحدگی پسند بلوچ گروپوں کی مالی اعانت اور انہیں مسلح کرنا آسان تھا، تاہم اپنی واپس کے بعد را این ڈی ایس کے بعض سابق اہلکاروں کی مدد سے اب بھارت سے ان گروپوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اس لیے لاجسٹک وجوہات کی بنا پر وہ مالی اخراجات کم کرنے اور ان گروپوں کو چلانے کے عمل کو آسان بنانے کے لیے ان کے دوبارہ اتحاد میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
حتمی تجزیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی لڑائی سیاسی ہے، جس کے طویل ہونے کی وجہ سے اس کے سلامتی پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ابھرتی ہوئی بلوچ عسکریت پسندی سے نمٹنے کا نقطہ آغاز حقیقی سیاسی شکایات کو دور کرنا ہے، جس میں لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی شامل ہے۔
اسی طرح یورپ میں مقیم قبائلی قیادت اور بلوچستان میں تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے مقامی کمانڈروں کے درمیان اختلافات کو عسکریت پسندی کے چینلج کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
آخر بات یہ ہے کہ نرم مزاج اور چنیدہ قانون سازوں کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں لانے کی بجائے بلوچ عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ آزادانہ اور شفاف انداز میں اپنا ناقابل انتقال حق رائے دہی استعمال کریں۔ بلوچستان کے زخموں کو مرہم کی ضرورت ہے جو صرف حقیقی عوامی نمائندگی ہی فراہم کر سکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر پہلے عرب نیوز پر شائع ہوئی تھی
صنف عبدالباسط خان سنگاپور کے ایس راجارتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ری سرچ فیلو ہیں۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔