ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل یا شریف خاندان کی رپورٹ؟

ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ بھی دیکھ لی ہے اور حکومتی ترجمانوں کا جواب آں غزل بھی۔ اب سمجھ نہیں آ رہی، پہلے کس پر رویا جائے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی اور ریاست کی گرفت موجود نہیں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں۔


ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ بھی دیکھ لی ہے اور حکومتی ترجمانوں کا جواب آں غزل بھی۔ اب سمجھ نہیں آ رہی، پہلے کس پر رویا جائے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ بتا رہی ہے کہ پاکستان جو گذشتہ سال کرپشن پرسپشن ریٹنگ میں 124 ویں نمبر پر تھا، اس سال تنزلی کے مراحل کرتا ہوا 140 ویں نمبر پر آ گیا ہے اور اہل اقتدار، جو انگریزی زبان پر بھی دسترس رکھتے ہیں، اندر کی خبر دے رہے ہیں کہ یہ رپورٹ تو اصل میں شریف خاندان کی تیار کردہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مخبری کے ہمراہ یہ ارشاد بھی ہے کہ یہ رپورٹ تو شریفوں ہی کے زمانے کی کرپشن پر ہے اور اس رپورٹ نے تو شریفوں ہی کو بے نقاب کیا ہے۔ گویا حکومت کے فاضل ترجمانوں کے مطابق یہ رپورٹ تیار بھی شریف خاندان نے کروائی ہے اور یہ رپورٹ ہے بھی شریف خاندان کی کرپشن سے متعلق۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ شریف خاندان نے شریف خاندان کی کرپشن پر رپورٹ تیار کروائی اور وضاحتیں حکومتی مشیروں کو دینا پڑ رہی ہیں۔

مہنگائی کے اس زمانے میں کسی نوحہ گر کو ساتھ رکھنے کی قدرت تو نہیں، لیکن مرزا غالب کی طرح یہ طالب علم بھی اتنا ضرور سوچ رہا ہے کہ پہلے دل کو رویا جائے یا جگر کو پیٹا جائے۔ مشیرانِ کرام کی عین نوازش ہوگی اگروہ صرف اتنا بتا دیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ’شریف خاندان کی تیار کردہ رپورٹ‘ سمجھ کر نظر انداز کیا جائے یا ’شریف خاندان کی کرپشن کی رپورٹ‘ سمجھا جائے۔

حکومتی مشیران تو ایک طبعِ رواں ہیں، موج میں رہتے ہیں ورنہ رپورٹ تو بتا رہی ہے کہ جب سے عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے اس سال سے اب تک کرپشن کا عالم کیا ہے۔ 2018 میں پاکستان 117 ویں نمبر پر تھا۔ 2019 میں یہ 120 ویں نمبر پر چلا گیا۔ 2020 میں یہ 124 ویں نمبرپر جا پہنچا اور اب 2021 میں اس کا نمبر 140 ہے، یعنی جب سے عمران حکومت آئی ہے پاکستان کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں نیچے جا رہا ہے۔

یہ رپورٹ ماہرین اور کاروباری حضرات سے لیے گئے سوالنامے پر مبنی ہے اور اس میں اصل کرپشن نہیں، بلکہ اس کے تاثر یا Perception کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے فلسفہ یہ ہے کہ اصل کرپشن کو بوجوہ ناپنا ممکن نہیں ہے، البتہ اس کے تاثر کو ضرور ناپا جا سکتا ہے جو عام طور پر اصل کرپشن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

اس سال کی رپورٹ سے عندیہ ملتا ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں کی نسبت کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ اتنا غیر معمولی ہے کہ صرف تین سالوں میں پاکستان کرپشن گراف میں 117 ویں نمبر سے چھلانگ لگا کر 140ویں نمبر پر پہنچ گیا۔ کسی حکومت کے صرف ایک سال میں ملک کرپشن انڈیکس میں 16 درجے تنزلی کا شکار ہو جائے تو اس سے زیادہ گھبرانے کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس بد ترین صورت حال کی وجہ بھی بیان کر دی ہے۔ اس کے خیال میں کرپشن بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی اور ریاست کی گرفت موجود نہیں ہے۔ ساتھ ہی وہ ایک ایک سال کا حساب بھی بتا رہے ہیں کہ 2019 میں یہ صورت حال تھی، 2020 میں یہ تھی اور 2021 کا عالم یہ ہے۔ حکومت کے سمجھنے کی بات یہ ہے پروپیگنڈے کی غیر معمولی قوت سے دھول تو اڑائی جا سکتی ہے لیکن اس سے کوئی حکومت سرخرو نہیں ہو سکتی۔ یہ رپورٹ ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ ہے۔ اس کے مندرجات کا تمسخر اڑانے سے زیادہ بہتر ہے کہ حکومت خود احتسابی کی طرف مائل ہو اور اصلاح احوال کی طرف قدم بڑھائے۔

یہ حکومت افتاد طبع کے اعتبار سے جنگجویانہ ہے جو میدان جنگ ہی میں نہیں، کمین گاہ اور حتی کہ اپنے خیمے میں بھی شمشیر برہنہ ہاتھ میں لیے رجز پڑھتی رہتی ہے۔ سلامتی اسی کے نصیب میں ہے جو اس کے گن گاتا رہے، جس نے پوری خیر خواہی سے بھی تنقید کے دو جملے ادا کر دیے اس کے لیے کوئی جائے امان نہیں۔ چنانچہ اب اگر ایک بین الاقوامی ادارہ پورے اہتمام سے دنیا بھر کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کر رہا ہے تو یہ ’پٹوار خانے‘ کی رپورٹ قرار پائی ہے۔ ہاں اگر اس رپورٹ میں حکومت کے بارے میں کلمہ خیر کہا گیا ہوتا تو اس وقت روئے زمین پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے معتبر ادارہ کوئی نہیں ہونا تھا۔

سوچنے کی بات یہ ہے حکومت بھی دیانت دار لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وزیراعظم بھی صادق اور امین ہیں، وزرا کا دامن بھی کرپشن سے پاک ہے، کرپٹ اور بے ایمان لوگ حکومت سے باہر اور کچھ اس ملک سے بھی باہر ہیں، روز فصیل اقتدار سے منادی ہوتی ہے کہ چھوڑنا ہم نے کسی کو نہیں، حکومتی اداروں میں بھی میرٹ بھائی جان آ چکے ہیں اور رشوت اور حرام خوری کا سرکاری اہلکاروں کو نام بھی یاد نہیں، وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی حکومت ہے، قومی وسائل کی لوٹ مار بھی بند ہو چکی ہے تو پھر کرپشن میں اضافہ کیسے اور کیوں ہو رہا ہے؟

یہ کیا ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار ملک میں دیانت دار لوگوں کی حکومت آئی اور تاریخ میں پہلی بار کرپشن انڈیکس میں پاکستان بد ترین سطح پر پہنچ گیا؟

 کہیں ایسا تو نہیں کہ پچھلی کرپٹ حکومتوں نے ڈالر کی طرح کرپشن کو بھی مصنوعی طور پر روکا ہوا تھا اور اب دیانت داروں کی حکومت نے اسے اس کی قدرتی حالت میں بحال کر دیا ہے؟


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ