کرپشن رپورٹ پر بحث: ٹرانسپیرنسی پاکستان کے عہدیدار کو ’حیرت‘

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس پاکستان میں بدعنوانی کے تاثر میں اضافہ ہوا، جس پر وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گِل نےکہا: ’یہ رپورٹ مسلم لیگ ن کے زمانے کی کرپشن کی داستان ہے کیونکہ یہ ڈیٹا ان سالوں کا ہے۔‘

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سال 2020 کی رپورٹ میں پاکستان کا سی پی آئی 31 رہا جو 2019 کے سکور (32) کے مقابلے میں صرف ایک پوائنٹ کم ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

کرپشن کے خلاف کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے پاکستان میں 2020 کے دوران بدعنوانی کے تاثر میں اضافے کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بعض وزرا کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ گذشتہ ادوار حکومتوں کی کرپشن ثابت کرتی ہے، جس پر پاکستان میں ادارے کے ایک سینیئر ڈائریکٹر نے ’حیرت‘ کا اظہار کیا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں دنیا کے 180 ملکوں میں پائی جانے والی کرپشن (Perceived Corruption Index/CPI) کا اندازہ لگاتے ہوئے ایک فہرست شائع کی گئی جس میں پاکستان کا نمبر 124 واں ہے، جو 2019 اور 2018 کے مقابلے میں بالترتیب چار اور سات درجے نیچے ہے، یعنی 2020 کے دوران ملک میں گذشتہ سالوں کی نسبت کرپشن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

اس رپورٹ کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی رابطہ کاری شہباز گِل نے ٹوئٹر پر کہا: ’یہ رپورٹ مسلم لیگ ن کے زمانے کی کرپشن کی داستان ہے کیونکہ یہ ڈیٹا ان سالوں کا ہے۔‘

اس حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے سینیئر ڈائریکٹر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستانی حکومت کے وزیروں کو رپورٹ پڑھنی چاہیے، اس میں ساری معلومات نئی ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر  مذکورہ عہدیدار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’رپورٹ کے ذرائع میں صرف دو رپورٹس 2018 کی ہیں جبکہ باقی چھ 2019 اور 2020 کی ہیں۔‘

یہاں سوال یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹس کیسے تیار کرتا، اس کے لیے مواد (ڈیٹا) کہاں سے اور کیسے حاصل کیا جاتا ہے اور اس سی پی آئی کا حساب کیسے لگایا جاتا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے ان تمام سوالات کا جاننے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان میں کرپشن کے رجحان میں زیادتی یا کمی کا اندازہ کیسے لگاتا ہے اور 2020 میں ایسا کیا ہوا جو گذشتہ سالوں کی نسبت ملک میں بدعنوانی میں اضافے کی وجہ بنا؟

ڈیٹا کہاں سے آتا ہے؟

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کسی ملک میں پائے جانے والے بدعنوانی کے رجحان سے متعلق خود کوئی سروے کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے، بلکہ یہ اس سلسلے میں دوسرے بین االاقوامی اداروں کی تیار کردہ رپورٹس پر انحصار کرتا ہے۔

پاکستان میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے منسلک ایک سینیئر ڈائریکٹر نے بتایا کہ سالانہ رپورٹ کی تیاری کے لیے 13 بین الاقوامی اداروں سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں، جس کی بنیاد پر سی پی آئی ترتیب دیا جاتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’ہم ان اداروں کی سالانہ رپورٹس میں سے کرپشن سے متعلق حصہ اٹھا لیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر سوالات بناتے اور ان کے جوابات حاصل کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ 2020 کی رپورٹ کی تیاری کے لیے پاکستان سے متعلق آٹھ بین الاقوامی اداروں سے حاصل ہونے والی معلومات استعمال کی گئیں، جن میں برٹیلسمن اسٹیفٹونگ، اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ، گلوبل انسائٹ، ورلڈ بینک، ورلڈ اکنامک فورم، ورلڈ جسٹس پروجیکٹ، پی آر ایس گروپ اور ورائٹیز آف ڈیموکریسی شامل ہیں۔

سی پی آئی کیا ہے؟

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں جو چیز سب سے زیادہ پڑھنے یا دیکھنے میں آتی ہے، وہ ہے سی پی آئی یا کرپشن پرسیوڈ انڈیکس۔ اس سے مراد وہ سکور (نمبر) ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک کو وہاں پائی جانے والی کرپشن کے رجحان کے حساب سے حاصل ہوتے ہیں اور جس ملک میں سی پی آئی سکور جتنا کم ہوتا ہے وہاں کرپشن اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔  

سی پی آئی سکور کی بنیاد پر ہی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن کے رجحان کی شدت کی بنیاد پر دنیا کے 180 ممالک کی فہرست تیار کرتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ سی پی آئی کے لیے سکور ماہرین اور بزنس مینوں کی آرا کی مدد سے ترتیب دیے جاتے ہیں نہ کہ عام عوام۔

سی پی آئی تیار کیسے کی جاتی ہے؟

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جن اداروں کا ڈیٹا استعمال کرتا ہے، انہی کے ذریعے ان کی اپنی رپورٹس کی بنیاد پر مختلف ملکوں میں کرپشن کا اندازہ لگانے کا کام لیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان اداروں سے 180 ممالک میں کرپشن سے متعلق الگ الگ مخصوص سوالات پوچھے جاتے ہیں، جن کی بنیاد پر وہ ادارے ان ملکوں کو اپنے حساب سے سکور دیتے ہیں، جو ہر ملک میں کرپشن کی صورت حال کو دوسرے ملکوں کی صورت حال کی مناسبت سے ظاہر کرتے ہیں۔

بین الاقوامی اداروں سے حاصل ہونے سکورز کو صفر سے 100 کے پیمانے میں تبدیل کرکے اوسط نکالی جاتی ہےاور اس طرح ہر ملک کو حاصل ہونے والا نمبر اس کا سی پی آئی کہلاتا ہے۔  

جن بین الاقوامی اداروں کا ڈیٹا سی پی آئی معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ پبلک سیکٹر میں کرپشن کے مختلف رجحانات کو ناپتے ہیں، جن میں رشوت خوری، عوامی فنڈز میں خرد برد، بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی، قوانین کی موجودگی، معلومات تک رسائی اور صحافیوں، تحقیقات کرنے والے اہلکاروں اور کرپشن کے خلاف لڑنے والوں کی حفاظت کے لیے قوانین کی موجودگی شامل ہوتے ہیں۔

سی پی آئی میں ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، مالیاتی راز یا دولت کے غیر قانونی استعمال پر دھیان نہیں دیا جاتا۔

پاکستان کا سی پی آئی

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سال 2020 کی رپورٹ میں پاکستان کا سی پی آئی 31 رہا جو 2019 کے سکور (32) کے مقابلے میں صرف ایک پوائنٹ کم ہے۔

جن آٹھ بین الاقوامی اداروں سے پاکستان کے متعلق معلومات حاصل کر کے پاکستان کا سی پی آئی تیار کیا گیا، ان میں سے چھ اداروں نے کرپشن کے رجحان میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی اور پاکستان کو 2019 والا سکور ہی دیا۔ تاہم دو اداروں ورلڈ جسٹس پروجیکٹ اور ورائٹیز آف ڈیموکریسی نے پاکستان میں کرپشن کے رجحان میں اضافہ دیکھتے ہوئے اسے کم نمبر دیے۔

کیا سی پی آئی کرپشن کا صحیح اندازہ ہے؟

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سی پی آئی تیار کرنے کے لیے ماہرین اور بزنس ایگزیکیٹوز سے نہایت محتاط انداز سے بنائے گئے سوالات کے ذریعے ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے۔

ادارے کا دعویٰ ہے کہ کسی ملک کا سی پی آئی سکور وہاں کے عوام کی رشوت ستانی سے متلق تجربات جیسے اقدامات سے ربط رکھتا ہے جبکہ سی پی آئی انڈیکس کو مخصوص اوقات میں دوبارہ چیک بھی کیا جاتا ہے تاکہ اس میں ڈالے گئے سکورز کی درستگی کو یقینی بنایا جاسکے، جس سے بار بار ثابت ہوا ہے کہ سی پی آئی کرپشن کو ناپنے کا ایک صحیح پیمانہ ہے۔

کن اداروں کی رپورٹس سے مدد لی گئی؟

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں جن بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس سے مدد لی گئی، ان کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:

برٹیلسمن اسٹیفٹونگ ٹرانسفارمیشن انڈکس 2020

اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کنٹری رسک سروس 2019

گلوبل انسائٹ کنٹری رسک ریٹنگز 2018

پی آر ایس گروپ انٹرنیشنل کنٹری رسک گائیڈ 2019

ورلڈ بینک کنٹری پالیسی اینڈ انسٹی ٹیوشنل اسسمنٹ 2018

ورلڈ اکنامک فورم ایگزیکٹیو اوپینیئن سروے 2019

ورلڈ جسٹس پراجیکٹ رول آف لا انڈیکس ایکسپرٹ سروے 2019

ورائٹیز آف ڈیموکریسی 2019

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان