ایک طرف کرپشن میں اضافہ دوسری طرف نیب کی تعریف؟

جہاں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے وہیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کافی بہتر رہی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں ایشیا پیسیفک کا اوسط سی پی آئی سکور 45 رہا ہے۔(اے ایف پی)

جمعرات کی صبح جاری ہونے والی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2018 کے مقابلے میں 2019 کے دوران پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔

سال 2018 کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) میں پاکستان کا سکور سو میں سے 33 تھا۔ جو گذشتہ سال کے دوران خراب ہو کر 32 ہو گیا ہے۔

اسی طرح زیادہ کرپشن والے ممالک میں پاکستان کا درجہ 117 سے بڑھ کر 2019 کے دوران 120 ہو گیا ہے۔ جو گذشتہ دس برس میں سب سے زیادہ ہے۔

کرپٹ ترین ممالک اور پاکستان

کرپشن کے لحاظ سے ملکوں کی درجہ بندی کی غرض سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل 180 ملکوں کو چھ خطوں یا ریجنز میں تقسیم کرتی ہے۔ ان میں امریکہ، ایشیا پیسیفک، مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ، سب صحارن افریقہ اور مغربی یورپ اور یورپین یونین شامل ہیں۔ پاکستان کا شمار ایشیا پیسیفک ریجن میں ہوتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہر ملک کے لیے کرپشن پرسیپشن انڈیکس تیار کرنے کے علاوہ ان ریجنز کا اوسط سی پی آئی سکور بھی جاری کرتی ہے۔

گذشتہ سال کے دوران سب صحارن افریقی ریجن کا اوسط سی پی آئی سکور سب سے کم (32) رہا۔ یعنی براعظم افریقہ میں صحرائے صحارہ کے جنوب میں واقع 50 سے زیادہ ملکوں میں کرپشن دنیا بھر میں سب سے زیادہ تھی۔

اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کا سی پی آئی سکور بھی 2019 کے لیے 32 قرار دیا۔

یوں پاکستان کا سی پی آئی سکور نہ صرف کم ہوا ہے بلکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے معیارات کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ علاقے کے برابر بھی رہا ہے۔

اپنے ریجن میں بھی کم سکور

ٹرانسپیرنسی انٹرنشینل کے چھ ریجنز میں پاکستان کا شمار ایشیا پیسیفک میں ہوتا ہے۔ جس میں براعظم ایشیا کے بیشتر ممالک شامل ہیں۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں ایشیا پیسیفک کا اوسط سی پی آئی سکور 45 رہا ہے۔ پاکستان کا سی پی آئی سکور (32) اپنے ریجن کے ممالک کے مقابلے میں بھی بہت کم ہے۔

ایشیا پیسیفک ریجن میں پاکستان کے علاوہ بھارت، نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیشن، چین، انڈونیشیا وغیرہ شامل ہیں۔

پڑوسی ممالک سے تناسب

پاکستان گذشتہ سال کے دوران پڑوسی ممالک سے کرپشن کے حوالے سے نسبتا درمیان میں رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یعنی دو پڑوسی ملکوں ایران اور افغانستان نے پاکستان سے بھی خراب سی پی آئی  سکور (بالترتیب 28 اور 16) حاصل کیا۔

جب کہ بھارت اور چین میں گذشتہ سال کے دوران کرپشن پاکستان کی نسبت کم رہی۔

بھارت کا 2019 کے لیے سی پی آئی سکور 41 اور چین کا 39 رہا۔

علاقے کے دوسرے ملکوں میں بنگلہ دیش نے گذشتہ سال کے دوران کرپشن کے حوالے سے پاکستان سے بھی خراب سکور (26) حاصل کر سکا۔ جبکہ سری لنکا کا سی پی آئی سکور 38 رہا۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان چیپٹر نے پاکستان کے سی پی آئی سکور میں کمی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال کے دوران دنیا کے بہت سارے ممالک کی کارکردگی خراب رہی تھی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے بیان کے مطابق: اگرچہ پاکستان کا سکور ایک پوائنٹ سے خراب ہوا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بہت سارے ترقی یافتہ ممالک کا سکور بھی گذشتہ سال کے دوران نیچے گیا ہے۔

اس سلسلے میں بیان میں کینیڈا، فرانس، برطانیہ اور ڈنمارک جیسے ممالک کا ذکر کیا گیا۔ جن کا سکور 2018 کی نسبت 2019 میں پاکستان سے زیادہ خراب ہوا۔

بیان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے قومی احتساب بیورو کے کردار کو بھی سراہا گیا۔ چیئرمین ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے پریس ریلیز میں کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی قیادت میں نیب دوبارہ زندہ ہوا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کافی بہتر رہی ہے۔ ’نیب کی جانب سے کرپشن کے خلاف عوامی آگاہی کے لیے میڈیا پر چلائی جانے والی تحریک قابل تحسین ہے۔‘ 

کرپشن کم کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کرپشن پر قابو پانے کے لیے کم از کم دو اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

اس سلسلے میں انہوں نے میڈیا کی آزادی پر سے پابندیاں اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو سے تین سالوں کے دوران پاکستان میں شفافیت سے متعلق صورت حال خراب ہوئی ہے۔ اور یہ وہی زمانہ ہے جب میڈیا پر پابندیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

احمد بلال محمود نے کہا پاکستان کو انتخابی عمل میں پیسے کے بے دریغ استعمال روکنے کے لیے بھی قانون سازی کرنا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اس کا ذکر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بھی موجود ہے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ الیکشن کمیشن کے اندر ہی ایک ایسا محکمہ بنایا جا سکتا ہے جو دیکھے کہ پارٹیاں اور انتخابات میں حصہ لینے والے لوگ پیسہ کہاں سے لاتے ہیں اور کتنا خرچ کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان