صارفین کی ’مسلسل نگرانی‘ کو روکنا ناممکن: گوگل پر مقدمہ

مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’حقیقت میں وہ صارفین جو گوگل کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں گوگل کو اپنی لوکیشن جمع کرنے، محفوظ کرنے اور اس سے منافع کمانے سے نہیں روک سکتے۔‘

25 جنوری 2021 کو نیو یارک میں گوگل ہیڈ کوارٹر کا منظر  (اے ایف پی)

امریکہ کی تین ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا (ڈی سی) نے گوگل پر مبینہ طور پر اپنے صارفین کو ان کے ڈیٹا کی پرائیویسی کے حوالے سے دھوکہ دینے پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

اس مقدمے میں گوگل پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے صارفین کے لیے اپنی لوکیشن کی نگرانی کو روکنے کو تقریباً ’ناممکن‘ بنا دیا ہے۔

ڈی سی کے اٹارنی جنرل کارل راکین نے الزام عائد کیا ہے کہ گوگل نے اپنے صارفین کو ان کی لوکیشن کی نگرانی کرنے اور استعمال کے حوالے سے ’منظم طور پر‘ دھوکہ دیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی بڑی کمپنی نے اپنے صارفین کو غلط طور پر یہ سوچنے دیا ہے کہ وہ کمپنی کی جانب سے ان کے بارے میں جمع کی جانے والی معلومات کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔

مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’حقیقت میں وہ صارفین جو گوگل کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں گوگل کو اپنی لوکیشن جمع کرنے، محفوظ کرنے اور اس سے منافع کمانے سے نہیں روک سکتے۔‘

مزید یہ کہ گوگل کے پاس ’ان صارفین کی روز مرہ زندگی کی نگرانی کرنے کی غیر مثالی صلاحیت موجود ہے۔‘

مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے گوگل نے اپنے صارفین کے لیے اپنی لوکیشن کی حساس اور قابل قدر معلومات کے روکنے کو ناممکن بنا دیا ہے۔

راکین کے دفتر کے مطابق انڈیانا، ٹیکساس، اور واشنگٹن کے اٹارنیز جنرل بھی اپنی اپنی ریاستوں میں ایسے ہی مقدمے دائر کر رہے ہیں۔

ان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’گوگل کا کاروباری ماڈل اپنے صارفین کی مسلسل نگرانی پر مبنی ہے۔ اس لا سوٹ میں کہا گیا ہے کہ گوگل کو ’ان معلومات کو حاصل کرنے کا ایک طاقتور معاشی فائدہ ہے‘ جو وہ صارفین کے لوکیشن ڈیٹا کو جمع کر کے حاصل کرتا ہے اور صارفین کے لیے اسے روکنے کو مشکل بناتا ہے۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ لوکیشن ڈیٹا گوگل کی بانی کمپنی الفابیٹ انکارپوریٹڈ کے ڈیجیٹل اشتہاروں کے کاروبار کے لیے بہت اہم ہے جس سے اس نے سال 2020 میں 150 ارب ڈالر کمائے ہیں۔

کیلی فورنیا کے علاقے ماؤنٹین ویو میں قائم کمپنی نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔

گوگل کے ترجمان ہوزے کاسٹنیڈا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اٹارنیز جنرل یہ مقدمہ ہمارے نظام کے بارے میں فرسودہ اور غلط دعوؤں کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ اپنی مصنوعات میں پرائیویسی کی خصوصیات کو شامل رکھا ہے اور لوکیشن ڈیٹا سے متعلق ایک باعمل کنٹرول فراہم کیا ہے۔‘

 کاسٹنیڈا کا کہنا تھا ان کی کمپنی اپنا دفاع کرتے ہوئے ’دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کرے گی۔‘

ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی کے خلاف یہ مقدمہ اس قانونی جنگ کا تازہ ترین حصہ ہے جس کا گوگل کو سامنا ہے۔ گوگل کا سرچ انجن دنیا بھر میں کی جانے والے 90 فیصد ویب سرچز میں استعمال ہوتا ہے۔

دسمبر 2020 میں امریکہ کی دس ریاستوں نے ٹیکساس کی قیادت میں گوگل کے خلاف ایک وفاقی مقدمہ دائر کیا تھا جس میں اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ آن لائن اشتہاروں کی صنعت میں ’عدم مقابلے کے رجحان‘ کو بڑھا رہا ہے۔ اس مقدمے میں حریف کمپنی فیس بک سے کی جانے والی ایک ڈیل بھی شامل تھی جس میں گوگل نے فائدہ اٹھایا تھا۔ جبکہ دو ماہ پہلے امریکہ کے محکمہ انصاف نے بھی گیارہ ریاستوں کے ساتھ گوگل پر عدم اعتماد کا ایک تاریخی مقدمہ دائر کیا ہے جس میں اس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ آن لائن سرچ اور اشتہاروں میں اپنے غلبے کا غلط استعمال کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صارفین کو اپنی پرائیویسی سیٹنگز کے حوالے سے درپیش مشکلات پر گوگل کے انجنیئرز بھی ماضی میں تنقید کر چکے ہیں گوکہ ایسا عوامی طور پر نہیں کیا گیا۔

اگست 2020 میں ایک لا سوٹ کی غیر مقفل دستاویزات میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ گوگل ’صارفین کا لوکیشن ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے دھوکہ دہی اور غیر شفاف طریقوں کا استعمال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سامنے آیا تھا کہ ایک ملازم (جس کا نام نہیں ظاہر کیا گیا) کی گوگل کی جانب سے نگرانی کی جا رہی تھی۔ ایسا اس ملازم کی جانب سے ایسا نہ ہونے کا یقین ہونے کے باوجود کیا جا رہا تھا۔

مقدمے میں سامنے آنے والے چیٹ ریکارڈ کے مطابق اس سافٹ وئیر انجنیئر کا کہنا تھا کہ ’ایک صارف کے طور پر بات کرتے ہوئے۔ یہ عجیب تھا۔ بالخصوص جب میں سوچ رہا تھا کہ میں نے اپنے فون میں لوکیشن کی نگرانی کو بند کر رکھا ہے۔‘

’اس حوالے سے ہماری پیغام رسانی پرائیویسی پر توجہ دینے والے گوگل سافٹ ویئر انجنیئر کے لیے بھی غیر واضح ہے۔ یہ اچھی بات نہیں۔‘

یہ مقدمہ بھی سال 2018 کے ان پرانے الزامات پر مبنی ہے جن میں گوگل پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ گوگل نے اپنے صارفین کے لیے اپنی لوکیشن کی معلومات پر روک لگانے سے مشکل بنا دیا ہے۔ گوگل ان تمام الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

اس خبر میں اے پی کی اضافی رپورٹنگ شامل ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی