برطانوی حکومت میں اسلامو فوبیا کے الزامات پر کسی کو حیرت نہیں

رکن پارلیمان نصرت غنی کے اسلاوفوبیا کے الزمات کے جواب میں کنزرویٹو پارٹی کے کچھ دھڑوں کی جانب سے آنے والے ردعمل سے بھی پارٹی میں مسلم مخالف کلچر جھلکتا ہے۔

برطانوی رکن پارلیمان نصرت غنی 12 مئی، 2021 کو لندن میں پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے۔ نصرت غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں مسلم ہونے کی وجہ سے 2020 میں وزیر ٹرانسپورٹ کے عہدے سے ہٹایا گیا (برطانوی پارلیمان، جیسیکا ٹیلر، ہینڈ آؤٹ)

برطانوی رکن پارلیمان نصرت غنی یہ دعویٰ کر کے شہ سرخیوں میں آ گئی ہیں کہ انہیں مسلم ہونے کی وجہ سے 2020 میں وزیر ٹرانسپورٹ کے عہدے سے ہٹایا گیا۔

اخبار سنڈے ٹائمز سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر نے کہا ہے کہ حکومتی وہپ نے انہیں کہا کہ ان کا ’مسلمان ہونا‘ ایک مسئلے کے طور پر اٹھایا گیا ہے اور ایک اور رکن پارلیمان نے کہا ہے کہ ان کا عقیدہ اوروں کو ’اچھا نہیں‘ محسوس کروا رہا ہے۔ (وہپ وہ پارٹی رکن ہوتا ہے جو پارلیمان میں اس بات کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ  ممبران پارٹی کی پوزیشن کے مطابق ہی ووٹ کریں۔)

وزیر اعظم بورس جانسن نے نصرت غنی کی شکایات کے بعد کابینہ کی انکوائری کا حکم دیا ہے اور ان کا اصرار ہے کہ وہ اس معاملے کو ’نہایت سنجیدگی‘ سے لے رہے ہیں۔

جانسن نے کہا: ’میں نے انہیں [غنی کے بیانات کو] بہت سنجیدگی سے لیا جب 18 ماہ قبل مجھے ان کے بارے میں بتایا گیا ۔۔۔۔ میں بہت خوش ہوں کہ اب تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘

تاہم جو حالات پر نظر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں انہیں اسلامو فوبیا کے ان الزامات پر کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ پارٹی کو پہلے بھی نسل پرستی کے بہت سے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کی سابق شریک چیئر بیرنیس سیدہ وارثی 2018 میں کہہ چکی ہیں کہ مسلم مخالف تعصب نے ’پارٹی کو زہر آلود کردیا ہے۔‘

غنی کے ساتھ پیش آنے والے واقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیدہ وارثی نے کہا کہ جو ہوا وہ ویسٹمنسٹر میں ایک ’کھلا راز‘ ہے اور کہا ہے کہ پارٹی میں ساتھیوں کو ’کئی ماہ‘ سے معلوم تھا کہ غنی اپنی شکایات سنی جانے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔

مائیکل گوو، جو کمیونٹیز کے سیکرٹری ہیں، ان پر بار بار اسلامو فوبیا کے الزامات لگتے آئے ہیں۔ ان پر ایک ایسی کتاب لکھنے پر تنقید ہوئی جس میں مسلم مخالف باتیں تھیں جبکہ وہ تھنک ٹینک ہینری جیکسن سوسائٹی کے بانی بھی رہے ہیں جس پر بھی اسلاموفوبیا پر تنقید ہو چکی ہے۔  

کنزرویٹو پارٹی میں اسلامو فوبیا کی جانچ کے لیے کمیشن کی گئی سنگھ رپورٹ میں مئی میں یہ سامنے آیا کہ یہ پارٹی میں ’ایک مسئلہ‘ ہے مگر یہ نہیں کہا گیا کہ پارٹی ادارہ جاتی طور پر نسل پرست ہے، جس کے بعد کچھ ناقدین نے اسے ’وائٹ واش‘ قرار دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیسر سوارن سنگھ کی تحقیقات میں یہ سامنے آیا کہ پارٹی کے ہیڈکوارٹرز میں درج کروائی گئی زیادہ تر شکایات درست نکلیں اور ان کے نتیجے میں تادیبی کارروائی بھی ہوئی۔ تاہم ان میں سے صرف 50 فیصد میں معطلی ہوئی اور صرف ایک کیس میں متاثرہ شخص سے معذرت کی گئی۔

ایسا لگتا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس میں اسلامو فوبیا ہے، اس سے نمٹنا تو دور کی بات ہے۔ یہ وہی مسلم مخالف جذبات ہیں جن کی وجہ سے وہ حالات پیدا ہوئے جو غنی نے مبینہ طور پر دیکھے۔

یہ بات غیر یقینی ہے کہ سابق وزیر کی شکایات کے نتیجے میں کابینہ کی انکوائری کے معنی خیز نتائج نکلتے ہیں یا نہیں۔ اگر وزیر اعظم واقع میں اس معاملے کو سنجیدہ لے رہے تھے تو انہیں اس پر ایکشن لینے میں ایک سال سے زائد کا عرصہ کیوں لگا؟

اور سچائی سامنے لانے کا ان کا عزم ماضی میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے ان کے بیانات سے کیسے میل کھاتا ہے؟

تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ جب جانسن نے باحجاب مسلم خواتین کو ’لیٹر باکسز‘ سے تشبیہ دی تو اس کے ایک ہفتے کے اندر اسلامو فوبیا کے واقعات میں 375 فیصد اضافہ ہوا۔

غنی کے الزمات کے جواب میں کنزرویٹو پارٹی کے کچھ دھڑوں کی جانب سے آنے والے ردعمل سے بھی پارٹی میں مسلم مخالف کلچر جھلکتا ہے۔ کئی سیاست دانوں اور اعلیٰ اراکین نے غنی کے تجربات کو رد کیا ہے یا ان کی سنگینی کو کم ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔

چیف وہپ مارک سپینسر نے عوامی طور پر ظاہر کیا کہ وہ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر غنی سے کہا کہ انہیں ان کے ’مسلم ہونے‘ کی وجہ سے ہٹایا جا رہا ہے، مگر ساتھ ہی غنی کے مطابق ہونے والے واقعات کی تفصیلات کو چیلنج کیا۔  

دوسری جانب کرنزرویٹو رکن پارلیمان مائیکل فیبریکنٹ نے کہا کہ ان کے الزمات کا وقت ’بہت مشکوک‘ ہے اور وعویٰ کیا کہ شاید ’پارٹی گیٹ‘ کی وجہ سے یہ جانسن کو ہٹانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

ایل بی سی سے بات کرتے ہوئے فیبریکنٹ نے کہا کہ غنی ’ظاہری طور پر‘ مسلم نہیں اور یہ دعویٰ کرنا کہ 2020 میں انہیں وزارت ٹرانسپورٹ سے ہٹانے کی وجہ ان کا مسلم ہونا ہے ایک ’احمقانہ‘ بات ہے۔

وزیر تعلیم ندیم زہاوی نے سکائی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں غنی کے معاملے میں وزیر اعظم جانسن کے کچھ نہ کرنے کا دفاع کیا۔

انہوں نے کہا: ’وزیر اعظم نے ندیم زہاوی کی بطور وزیر تعلیم، ساجد جاوید کی بطور وزیر صحت تقرری کی اور رشی سناک، پریتی پٹیل اور کوازی کوارٹنگ کی تقرری کی۔‘

وزرا کے سابق مشیر اور مارگریٹ تھیچر سینٹر کی اکیڈمک کونسل کے چیئر مین ایڈرین ہلٹن نے کہا: ’یہ ماننا مشکل ہے۔ وزیر اعظم کے ابا و اجداد مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی کابینہ میں مسلمانوں کو شامل کیا ہے۔‘  

ایک مسلمان خاتون کے طور پر نصرف غنی کو سنے جانے کا حق ہے اور کسی کو حق نہیں کہ وہ اس پر سوال اٹھائے۔ انہیں اپنی کام کی جگہ پر کسی بھی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا چاہے، کم سے کم سے مذہب کی بنیاد پر نہیں۔

مگر یہ وہی حالات اور حقیقت ہے جس کا برطانیہ میں نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والی کئی مسلم خواتین روز سامنا کرتی ہیں۔ اس تناظر میں کہ ایک حکومت جس نے ایک ایسی رپورٹ کمشین کی جس کا متنازع نتیجہ یہ نکلا ہے کہ برطانیہ ادارہ جاتی طور پر نسل پرست نہیں، میں بالکل حیران نہیں کہ اسلامو فوبیا کے مزید الزامات سامنے آئے ہیں۔  

مجھے شک ہے کابینہ کی انکوائری بھی ایک اور وائٹ واش ہوگی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ