جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے تفصیلی فیصلے میں تضادات: وزیر قانون

وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ درست نہیں اور یہ کہ ان کے پاس قانونی آپشنز موجود ہیں۔

12 جون، 2014 کی اس تصویر میں بیرسٹر فروغ نسیم سندھ ہائی کورٹ کے باہر نظر آ رہے ہیں (اے ایف پی)

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے ہفتے کو ایک نیوز چینل سے گفتگو میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے فل بینچ کے آج جاری ہونے والے تفصیلی فیصلے کو ’غلط اور تضادات کا حامل‘ قرار دے دیا۔

فروغ نسیم نے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’ہم جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کےمخالف نہیں، ہمارے پاس ایک معلومات آئی وہ ہم نے آگے بڑھا دی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اپنے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہیں۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ درست نہیں اور یہ کہ ان کے پاس قانونی آپشنز موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’معزز جج صاحبان کے اختیارات سب سے زیادہ اور ذمہ داریاں بھی سب سے زیادہ ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کا جج اہل خانہ کے معاملات سے آزاد ہے تو پھر ہر سرکاری ملازم کو یہ سہولت دینا ہو گی۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر سپریم کورٹ کا جج اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کا جواب دہ نہیں تو کیا یہ معیار دیگر سرکاری ملازمین کے لیے بھی ہوگا؟ ’اگر جج جواب دہ نہیں تو مثلاً میں اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جواب دہ ہوں؟‘

تفصیلی فیصلہ

سپریم کورٹ نے آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں جبکہ کسی بھی شخص، بشمول اس عدالت کے جج، کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ نے کیس کا مختصر فیصلہ 26  اپریل، 2021 کو سنایا تھا جس کے نو ماہ اور دو دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا 45 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلےمیں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے چھ - چارکے تناسب سے سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا تھا اور عدالتی فیصلے میں کہا کہ سرینا عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں جبکہ اس عدالت کے جج سمیت کسی کو بھی قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ اور جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے جب کہ  آئین کے آرٹیکل نو سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔

تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن قانون کے مطابق ہونا چاہیے اور کھلی عدالت شیشے کے گھر جیسی ہے۔

فیصلے کے مطابق مسز سرینا عیسیٰ سے بیان میں معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا نہیں پوچھا گیا تھا اور انہیں اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا۔

’آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہرخاص وعام کا بنیادی حق ہے لہٰذا صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔‘

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کی اہلیہ کے آزادانہ ٹیکس معاملات میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں جب کہ سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جاسکتا، جس کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  اور ان کے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا، مرکزی کیس میں بھی جسٹس قاضی فائز اور ان کی اہلیہ کا مکمل مؤقف نہیں سنا گیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کسی ایک جج کے خلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے۔

جسٹس عمر بندیال کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں واضح غلطیاں اور ضابطے کی بے ضابطگیاں موجود تھیں، تاہم صدر اور وزیر اعظم کی طرف سے ریفرنس دائر کرنے کے پیچھے کوئی برا ارادہ شامل نہیں تھا۔

اختلافی نوٹ

جسٹس یحیٰ آفریدی اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ صدر مملکت آئین کے تحت اپنی صوابدید پر عمل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے اور  ریفرنس دائر کرنا قانون اور آئین کے منافی تھا۔

’یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ ہماری عدلیہ کی آزادی اتنی کمزور نہیں کہ شکایات کے ذریعے مؤثر طریقے سے دھمکی دی جاسکتی ہے یا ان کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔‘

انہوں نے لکھا کہ ججوں کا احتساب جمہوری طور پر متحرک معاشرے کے لیے لازمی ہے۔ در حقیقت ججوں کا بلا امتیاز، قانونی اور شفاف احتساب عدلیہ کی آزادی کو مزید تقویت بخشے گا، عوامی اعتماد کو بڑھاوا دے گا اور اس طرح ملک میں قانون کی حکمرانی کو فروغ ملے گا۔  

جسٹس یحیی آفریدی نے مزید لکھا کہ موجودہ درخواست قابل سماعت نہیں۔

انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا کہ وزیر قانون اور چیئرمین سیٹس ریکوری یونٹ، ایف بی آر اور انکم ٹیکس کے عہدے داروں سے غیر قانونی طور پر جسٹس فائز عیسی اور ان کی اہلیہ سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنے کے مرتکب ہوئے اور اس لیے ان کے خلاف متعلقہ قانون کے تحت قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر اور محکمہ انکم ٹیکس کے ان عہدے داروں کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے جنھوں نے خفیہ معلومات غیر قانونی طریقے سے وزیر قانون اور چیئرمین اے آر یو کو مہیا کیں۔

جسٹس فیصل عرب نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی بہت اچھی شہرت ہے تاہم جب مالی ساکھ پر سوال اٹھایا گیا تو ان اور ان کی اہلیہ پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس داغ کو دور کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ قانون کے تحت صدارتی ریفرنس غیر قانونی قرار دینے کے بعد  19 جون، 2020 کے مختصر فیصلے میں فراہم کردہ طریقہ کار کو اپنائے درخواست کو پوری طرح الزامات سے بری نہی کیا جا سکتا تھا۔

اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے جب اس عدالت نے اپنے مختصر حکم میں کمشنر انکم ٹیکس اور ایف بی آر کو غیر ملکی اثاثوں کے اعلان نہ کرنے کی وجوہات کی تحقیقات کرنے اور اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھنے کی ہدایت کی تو انہوں نے یہ سپریم جوڈیشل کونسل پر چھوڑ دیا تھا کہ اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ آیا اس طرح کی رپورٹ میں کافی معلومات موجود ہیں کہ انکوائری کا آغاز آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت کیا جاسکے۔

انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے بنائے جانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے بنانے والوں نے ججوں کا احتساب عدلیہ کے اندر ہی چھوڑ دیا تھا تاکہ اس عمل میں کسی قسم کا سیاسی عمل دخل نہ ہونے پائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان