ایمنسٹی کی رپورٹ پر اسرائیلی تلملاہٹ

ایمنسٹی کی رپورٹ عالمی برادری سے تقاضا کرتی ہے کہ اسرائیلی نسل پرستی کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے انصاف کے حصول کے راستے ڈھونڈنے چاہییں جو ابھی تک تلاش نہیں کئے گئے۔

سات جنوری 2022 کو ایک اسرائیلی فوجی اسرائیلی بستیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطینی مظاہرین پر آنسو گیس کا گولہ پھینک رہا ہے (اے ایف پی)

لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل انسانی حقوق کی آخری عالمی انجمن نہیں کہ جس نے اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دیا ہو۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے دوسرے گروپ بھی صیہونی ریاست کے خلاف ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشل اپنی تازہ رپورٹ کے بعد انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ سمیت دو اسرائیلی انجمنوں (بتسلیم اور ييش دين)  کی ہمنوا بن گئی ہے جو ماضی میں اسرائیل کے نسل پرست اقدامات کا پردہ چاک کر چکی ہیں۔

ایمنسٹی کی نئی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیل اپنے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں قوانین، پالیسوں اور ضوابط کے ذریعے نسلی علیحدگی کی ایک ایسی مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں برابری کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اس کا مقصد فلسطینی لوگوں کو دبانا اور ان پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔

سرکاری طور پر تمام اسرائیلی شہریوں کو مذہب ونسل کے امتیاز کے بغیر برابر کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فلسطینوں کے ساتھ ’کم تر غیر یہودی نسل‘ کے طور پر برتاؤ کرتا ہے۔

اسرائیل کے دفتر خارجہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ’جھوٹ، تضادات کا مجموعہ‘ قرار دیتے ہوئے رد کیا ہے۔ اسرائیلی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بے بنیاد الزامات ایسے ادارے کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں جس کی اسرائیل سے نفرت سب پر واضح ہے۔

اسرائیلی ترجمان نے کہا یہ رپورٹ اسرائیلی ریاست کے قیام کے حق کو تسلیم نہیں کرتی اور اس رپورٹ میں جس زبان کا استعمال کیا گیا ہے اس کا واضح مقصد اسرائیل کو بدنام کرنا اور یہود مخالف جذبات کو ابھارنا ہے۔

نسل پرست صہیونی ریاست کے کئی امریکی اور یورپی حامیوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے ’بیانیے کی جنگ‘ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

بیانیے کی جنگ جیسی اصطلاحات کا چناؤ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے خلاف سچائی جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسرائیل کی نسل پرستی کو بے نقاب کرنے والی لاتعداد رپورٹوں کو تل ابیب اور اس کے حواری پروپیگنڈا کی جنگ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

یہ بیانیہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے ہی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ظالمانہ نسل پرست نظام کی خامیوں سے تجاہل عارفانہ برت رہا ہے۔

اسرائیل میں نسلی پرستی کے اشارے روز اول سے ہی ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اسرائیل کی تاریخ اور صہیونی نظریے سے آگاہ نقاد بخوبی جانتے تھے کہ فلسطین کے اصل باسیوں کو بے دخل کر کے ان کی جگہ یورپی یہودیوں کے لیے وطن قائم کرنے کی کوششوں کا نتیجہ 20 ویں صدی کے آغاز پر وہاں کے 95 فیصد مقامی باسیوں کے حقوق بری طرح پامالی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس نظام کو نسل پرستی اور ظالمانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی قائم رکھا جا سکتا تھا۔

اسرائیل کے چند نرم خو ناقدین نے صہیونی منصوبے پر واضح اور دو ٹوک رائے دینے سے اس لیے گریز کیا کہ شاید مستقبل بعید میں کوئی نہ  کوئی، کسی دن تل ابیب کو نسل پرستی کے راستے پر چلنے سے روک سکے۔

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا تعلق ایسے مکتبہ فکر سے ہے جو حقائق کے بجائے عقیدے کو گرو مانتے ہیں۔ وزیر خارجہ کے طور پر انہوں نے 2017 میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ ’تل ابیب کو نسل پرستی یا دو ریاستی حل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔‘ جانسن کے اس بیان کے بعد قابض ریاست کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کا موازنہ جنوبی افریقہ پر حکمرانی کرنے والی سفید فام اقلیت سے کیا جانے لگا۔

فلسطینیوں کے حق خود اختیاری سے متعلق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شاطرانہ بیان کا جواب دیتے ہوئے بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ’کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو دو ریاستی حل پر عمل کرنا پڑے گا، یا پھر آپ کا  شمار نسل پرستانہ نظام کے پیروکاروں میں کیا جائے گا۔‘

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیلیوں اور صہیونیت کے بانیوں کی بڑی تعداد تو فلسطینیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتی ایسے میں ان کے استصواب رائے کے حق کی بات چہ معنی دارد؟

براک اوباما کے دور حکومت میں امریکی وزارت خارجہ کا قلمدان رکھنے والے جان کیری بھی اسرائیل کے مستقبل سے متعلق واضح نظریات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ واشنگٹن میں 2014 کے دوران ایک بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے دوران جان کیری نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں تو اسرائیل کے نسل پرست ریاست بننے کے خطرات دوچند ہو جائیں گے۔‘

فرانسیسی وزیر خارجہ جین یوزلی ڈریان بھی کم وبیش ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ڈریان کے بقول: ’نسل پرستی کا خطرا بہت زیادہ ہے۔‘ انہوں نے خبردار کیا کہ معاملات جوں کہ توں برقرار رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔

دونوں رہنما بڑی آسانی سے یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ ’سٹیٹس کو‘ اسرائیل میں مستقل حقیقت ہے اور اسرائیلی جمہوریت سے متعلق ان کے خیالات ایسے مستقبل سے وابستہ ہیں جس کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔

اقوام متحدہ کے سابق جنرل سکیرٹری بان کی مون کا اسرائیلی جمہوریت سے متعلق عقیدہ بھی کچے دھاگے سے بندھا تھا۔ گذشتہ برس ایک بیان میں بان کی مون کا کہنا تھا، ’فلسطینی علاقوں میں غیر انسانی اور جارحانہ اسرائیلی اقدامات سے عبارت صہیونی ریاست کے انداز حکمرانی کا منطقی نتیجہ نسل پرستی کے سوا اور کچھ نہیں۔‘

بان کی مون کا تبصرہ اسرائیل کے نسل پرست ریاست ہونے سے متعلق اقوام متحدہ کے خیالات سے آگاہی کا نقیب ثابت ہوا۔ اگرچہ عالمی ادارے کے موجود جنرل سکیرٹری انتونیو گوتیریش نے اسرائیل کو نسل پرست قرار دیے جانے سے متعلق یو این کی 2017 میں جاری کردہ رپورٹ ختم کرانے کی بھر پور کوشش کی۔

یہ اقدام یہود مخالف الزامات کے بعد سامنے آنے والے شدید دباؤ کے بعد کیا گیا۔ اس کے بعد یو این نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ اور ان دنوں غزہ پر حملے کی تحقیقات کے لیے مستقل کمیشن تشکیل دے دیا۔

اب اسرائیلی رہنما اس بات پر متفکر ہیں کہ مبادا یو این کمیشن کی حتمی رپورٹ کی اشاعت میں صہیونی ریاست کو نسل پرست اقدامات کا قصور وار نہ ٹھہرا دیا جائے۔

صہیونی قیادت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اسرائیل کے جمہوری چہرے کو بھی مانگے کے غازے سے سجایا گیا ہے۔ پانچ برس قبل سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک ایک انٹرویو میں اسی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے موجودہ حالات ’اب تک نسل پرستانہ نہیں،‘ تاہم صہیونی ریاست ’پھسلتی ڈھلوان‘ پر اسی سمت سفر کر رہی ہے۔

اس خدشے کا اظہار کرنے والوں کی بات ایہود باراک تک موقوف رہتی تو کچھ برا نہ تھا یہاں تو سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ بھی خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اسرائیل کو جنوبی افریقہ طرز کی جدوجہد‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فلسطینی ریاست قائم نہ ہونے کی صورت میں تل ابیب یہ جنگ ہار بھی سکتا ہے۔

بزرگ اسرائیلی رہنما کے بقول ’جس دن دو ریاستی حل ناکامی سے دوچار ہوا، اور ہمیں جنوبی افریقہ کی طرز پر مساوی ووٹ کی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا تو اسرائیل کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہو گا۔‘

دوسرے اسرائیلیوں کا کہنا ہے نسل پرستی مستقبل کا خطرہ نہیں بلکہ زمانہ حال کی زندہ وجاوید حقیقت ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر تعلیم شولامیت علونی کہتے ہیں ’کہ اسرائیل مقامی فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد نسل پرستی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ سابق اسرائیلی اٹارنی جنرل مائیکل بنیائر کی رائے میں ’اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں نسل پرستی قائم کر رکھی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل بڑی مدت تک ہسبارہ نامی پبلک ڈپلومیسی تکنیک کو کامیابی سے انفارمیشن وار فیئر اور اسٹرٹیجک اہداف کے ساتھ ملا کر اپنا روشن چہرہ مغرب کے سامنے پیش کرتا چلا آیا ہے، مگر سابق صدر جمی کارٹر نے ’ہسبارہ مشین‘ کو اپنی کتاب کے ذریعے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی جس کوشش کا آغاز کیا، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اس کا نقطۂ عروج  بننے جا رہی ہے۔

’فلسطین: نسل پرستی نہیں، امن‘ کے عنوان سے 2006 میں سامنے آنے والی جمی کارٹر کی کتاب اسرائیل کی نسل پرستانہ روش کے بارے میں بحث کا نقطہ آغاز بنی۔

کارٹر کے ناقدین نے روایت کے مطابق انہیں یہود مخالف خیالات کا پرچارک قرار دیا، تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مغربی دنیا کو جمہوریت کے لبادے میں لپٹا اسرائیل کا وہ مکروہ چہرہ دکھائی دینے لگا جو دراصل نسل پرستی کی گرد سے اٹا ہوا تھا۔

دو دہائیاں گزرنے کے بعد آج جمی کارٹر ایمنسٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کرتے ہوئے ببانگ دہل کہتے سنائی دیں گے کہ ’اسرائیل ناجائز قبضے کے بوجھ تلے دبی اپنی جمہوریت کو دنیا کے سامنے مہنگے داموں مزید نہیں بیچ سکتا۔‘

ایمنسٹی کی رپورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ تل ابیب اس وقت تک نسل پرست ریاست ہی قرار پائے گا جب تک وہ فلسطینیوں کو یہودیوں کے مساوی حقوق دینے پر تیار نہیں ہوتا۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ