ودہولڈنگ ٹیکس کیا ہے؟ آپ اسے واپس کیسے لے سکتے ہیں؟

آپ صرف کمائی جانے والی سالانہ آمدن پر ٹیکس نہیں دیتے، بلکہ سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی صورت میں اور بھی زیادہ ٹیکس دے رہے ہوتے ہیں۔

بجلی، فون اور  گیس کے بل اور سکول کی فیسیں جمع کرواتے ہوئے اور موبائل کارڈ خریدتے ہوئے آپ ودہولڈنگ ٹیکس  دیتے ہیں (روئٹرز)

نئے مالی سال 20-2019 کے بجٹ کے مطابق اب وہ افراد بھی ٹیکس ادا کریں گے جن کی سالانہ آمدنی چھ لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ جن کی آمدنی اس سے بھی کم ہوگی وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے مگر تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو یہ لوگ صرف کمائی جانے والی سالانہ آمدن پر ٹیکس نہیں دیں گے، لیکن سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی صورت میں وہ اپنی کم آمدنی کے باوجود باقائدہ ٹیکس ادا کر رہے ہوں گے اور اس کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں بنے گا۔ 

عامر عباس لاہور میں  ایک گھر میں ڈرائیور کی نوکری کرتے ہیں اور ان کی سالانہ آمدن تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے ہے۔ عامرٹیکس نیٹ میں نہیں آتے مگر وہ ہزاروں روپے ماہانہ ٹیکس حکومت کے خزانے میں جمع کرواتے ہیں۔ یہ ٹیکس ہے ود ہولڈنگ ٹیکس جو عامر اور ان جیسے بہت سے کم آمدنی والے افراد  بجلی، فون اور  گیس کے بل اور سکول کی فیسیں جمع کرواتے ہوئے اور موبائل کارڈ خریدتے ہوئے  دیتے ہیں۔

 عامر عباس یہ بھی نہیں جانتے وہ جو بھی ٹیکس دے رہے ہیں اسے وہ حکومت سے واپس لے سکتے تھے اگر ان کی آمدن ٹیکس نیٹ میں آنے کے لیے کافی ہوتی۔

اسی طرح ٹیکس نیٹ میں آنے والے ٹیکس فائلرز بھی اسے کسی نہ کسی صورت میں ادا بھی کر رہے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ ایک ایسا ٹیکس ہے جسے وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے واپس بھی لے سکتے ہیں یا پھر اپنا ادا کیاہوا ود ہولڈنگ ٹیکس اپنےادارے کی جانب سے کاٹی گئی انکم انکم ٹیکس میں ایڈجسٹ بھی کروا سکتے ہیں۔  

سمجھنے میں یہ سب تھوڑا بوکھلا دینے والا عمل لگے مگر ہم سمجھاتے ہیں کہ آخر یہ وود ہولڈنگ ٹیکس کیا بلا ہے اور اسے حکومت سے واپس کیسے لیا جاسکتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ٹیکس کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ناصر علی نے بتایا  کہ ودہولڈنگ ٹیکس انہی پر لگتا ہے جن کی آمدنی ہوتی ہے۔

ان کے مطابق انکم ٹیکس کے دوشٰعبے ہیں ایک نارمل جس میں ود ہولڈنگ ٹیکس کو ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس زیادہ ہو تو ریفنڈ بن جاتا ہے اور اگر کم ہو تو شہری کو اپنی جیب سے باقی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔

 دوسرا ہے  فائنل ٹیکس جس میں آمدنی کی بجائے ٹوٹل رسید پر ٹیکس لگتا ہے۔فرض کریں  ایک شخص ایک کروڑ روپے کا مال بیچتا ہے تو حکومت کہتی ہے کہ آپ کو ایک کروڑ کے مال پر ہوئی آمدن  کے بجائے جو آپ نے ایک کروڑ کی فروخت کی ہے اس پر ساڑھے چار فیصد ٹیکس ادا کر دیں۔ اسے فائنل ٹیکس کہتے ہیں۔

 اسی طرح اگر کوئی شخص درآمد کرتا ہے تو اس پر انہیں چھ فیصد فائنل ٹیکس دینا پڑتا ہے اور ان سے اور ٹیکس نہیں لیا جاتا۔

ود ہولڈنگ ٹیکس کی ایک دوسری صورت بھی ہے  جس میں فون کا بل )جو ایک ہزار روپے سے زیادہ ہو(، موبائل کارڈ لوڈ کروانا،  بجلی کا بل رہائشی ہو یا کمرشل دکان یا فیکٹری کا، بچوں کی سکول فیس پر کٹنے والا ٹیکس یا کوئی پلاٹ خریدنے پر ادا کیے جانے والے ود ہولڈنگ ٹیکس ایڈجسٹ ایبل ٹیکس ہیں۔

ناصر کہتے ہیں کہ  اس ود ہولڈنگ ٹیکس کی ایڈجسٹیبلٹی کے بھی کچھ طریقے ہیں ۔ جب ٹیکس فائلر سال کے اختتام پر اپنا ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں تو اس میں ود ہولڈنگ ٹیکس کوایڈجسٹ کرنے کا  آپشن ہوتا ہے اور آپ اسے اپنی آمدن میں ایڈجسٹ کر لیتے ہیں ۔

 مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی اچھے ادارے میں ملازمت کر رہا ہے تو وہ ادارہ اپنے ملازمین کے تمام ودہولڈنگ ٹیکسوں کو ایڈجسٹ کر دیتا ہے۔ آپ کو اپنے ادارے کو ایک درخواست  جمع کروانی پڑتی ہے کہ  میں اتنا ٹیکس دے چکا ہوں اس لیے میری تنخواہ سے ٹیکس کم کاٹا جائے۔ اچھے ادارے اپنے ملازمین کا ٹیکس  ایڈجسٹ کرتے ہیں اور اس طرح وہ نہ صرف اپنے ملازم کو سہولت دیتے ہیں بلکہ حکومت کا بھی وقت بچاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

 ود ہولڈنگ ٹیکس ایڈجسٹ کرنے کی ایک طریقہ اور بھی ہے۔  اس میں فرض کریں ایک  کاروباری شخص کے ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہوئے آمدن پر ایک لاکھ روپے ٹیکس کٹتا ہے انہوں نے  اپنے کمرشل میٹر پر 10 ہزار روپے کا ٹیکس بجلی کے بل پر دیا ۔ فرض کریں کہ ٹیلی فون کے بل پر ان کا پانچ ہزار روپے کا ٹیکس کٹ گیا۔ انہوں نے ایک پلاٹ بھی خرید لیا جس پر  35 ہزار روپے بطور ٹیکس ادا کیا گیا۔ اب ان کا ایڈجسٹ ایبل ٹیکس ہو گیا 50 ہزار روپے۔ ٹوٹل ٹیکس انہوں نے  دینا تھا ایک لاکھ روپے تو اب وہ اپنی انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہوئے بتائیں گے کہ  50 ہزار وہ پہلے سے ٹیکس دے چکے ہیں اور ان پیسوں کو ایڈجسٹ کیا جائے اور  باقی پچاس ہزار روپے کا ٹیکس وہ ادا کر دیں گے۔

 انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔  لیکن اگر کوئی ایسی صورت آجاتی ہے کہ وہ شخص ٹیکس ایڈجسٹ نہیں کر واپاتااور پورا ٹیکس ہی ادا کر دیتا ہے،تو اس میں جو فالتو پیسے ٹیکس کی مد  دیے گئے ہوتے ہیں ٹیکس ڈیپارٹمنٹ انہیں ریفنڈ کرنے کا مجاز ہے۔

 ریفنڈ کیسے ہوگا؟

ایف بی آر کی ویب سائٹ پر  ریفنڈ کا ایک آپشن موجود ہے جس میں درخواست دینی پڑتی ہے۔ ریفنڈ درخواست وہی شخص جمع کروا سکتا ہے جو فائلر ہو، جو  شخص فائلر نہیں وہ ود ہولڈنگ ٹیکس واپس نہیں مانگ سکتا۔

درخواست دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے متعلقہ سال کی انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروائی جاتی ہے ، جس میں زائد جمع شدہ ٹیکس کا ریفنڈ کلیم کیا جاتا ہے اور پھر اس متعلقہ ٹیکس سال کے دو سال کے اندر اندر درخواست دی جا سکتی ہے۔ مثلاً 2017 کے ریفنڈ کی درخواست 2019 تک دی جاسکتی ہے۔

 ایف بی آر کی ویب سائٹ پر یہ بھی درج ہے کہ جو شخص الیکٹرانیکلی اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کروائے گا بس وہی ریفنڈ کلیم کر سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ ناصر علی کہتے ہیں  کہ اگر ٹیکس ڈیپارٹمنٹ درخواست موصول ہونے کے باوجود ریفنڈ نہیں دیتا تو قانون کے مطابق ڈیپارٹمنٹ کو جرمانہ پڑے گا  جس میں ریفنڈ ہونے والی رقم پر ڈیپارٹمنٹ کو 18 فیصد تک جرمانہ دینا ہوگا۔

ناصر علی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ’ ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہر طرف سے ٹیکس دے رہے ہیں مگر وہ اس بات سے لاعلم ہیں بلکہ وہ شاید وہ اپنے حقوق کے بارے میں جاننا ہی نہیں چاہتے اسی لیے  وہ جانتے ہی نہیں کہ  ود ہولڈنگ ٹیکس انہیں واپس مل سکتا ہے یا وہ ان کے آمدنی ٹیکس میں ایڈجسٹ ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہوئے اپنا فالتو دیا ہوا ٹیکس واپس نہیں مانگتے۔‘

ڈرائیورعامر جیسے لوگوں کے بارے میں ناصر کہتے ہیں کہ یہ لوگ جو نہ ٹیکس نیٹ میں ہیں نہ فائلر ہیں وہ بھی ود ہولڈنگ اور دیگرٹیکسوں سے بچ نہیں پارہے جو کہ افسوس کی بات ہے۔ اس پر انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی تعریف کی جب انہوں نے کوشش کی تھی کہ ٹیکس کی مد میں عام لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو سپریم کورٹ مداخلت کر کے ختم کرے۔

  ناصر نے کہا کہ اس وقت ملک میں  ٹیکس فائلرز کی تعداد صرف 13 لاکھ ہے، سپریم کورٹ کو کوئی ایسا طرقہ کار وضع کرنا چاہیے کہ قومی شناختی کارڈ کے ذریعے صرف ان لوگوں پر ودہولڈنگ ٹیکس لگایا جائے جن کی آمدنی ٹیکس نیٹ میں آتی ہے۔

انہوں نے کہا:’ چھوٹے چھوٹے بچے ، خوانچہ فروش وغیرہ جب  موبائل فون  میں کریڈیٹ ڈلواتے ہیں اس پر ٹیکس کٹتا ہے جس پر ریاست پر جو بھتہ خوری کا الزام ہے وہ سچ ثابت ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں پر ٹیکس نہیں بنتا ان سے ٹیکس لینا بھتہ خوری کے مترادف ہی ہے۔ یہ زیادتی ہے اور اس پر عوام کو آگاہی دی جانی چاہیے۔ ‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت