لتا: میری آواز ہی پہچان ہے

سال 1953 میں استاد بڑے غلام علی خان امرتسر گئے تو پنڈت یس راج ان سے ملنے ہوٹل پہنچے۔ اچانک ایک گیت کی آواز سنائی دی یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا۔ جب گیت ختم ہوا تو بڑے غلام علی خاں نے کہا ’کمبخت کبھی بے سری ہوتی ہی نہیں۔‘

تین بہنیں، ایک بھائی اور ماں کے ساتھ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ 1942 میں ماسٹر دینا ناتھ دنیا سے گزر گئے اور پورے گھرانے کی ذمہ داری 13 سالہ بچی کے کندھے پر آ پڑی۔

کھیلنے کے دن تھے لیکن زندگی نے فلم سیٹ پہ لا کھڑا کیا۔ میک اپ کی ملمع سازی اور سیٹ کی ہنگامہ خیزی سے بچی کا دل کٹتا رہتا۔ بمبئ کے ریلوے سٹیشن ملاد سے سٹوڈیوز کا فاصلہ اچھا خاصا تھا لیکن بچی پیدل آیا جایا کرتی تاکہ پیسے بچا سکے۔ رات گئے جب گھر پہنچتی تو ہاتھ میں تھوڑی سی سبزی، ساڑھی کے پلو میں چند سکے اور آنکھ میں ڈھیر سارے آنسو ہوتے۔ یہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی لیکن اگلے دن پیٹ کی بھوک دوبارہ فلمی دنیا کے دوزخ میں لا جھونک دیتی۔

بچی کا نام ہیما تھا جسے دنیا لتا منگیشکر کے نام سے جانتی ہے۔ ان کے والد تھیٹر کے مشہور اداکار اور کلاسیکل گائیک تھے۔ مراٹھی زبان کی تین فلمیں ناکام ہوئیں جس کے بعد مایوسی، گھٹیا شراب اور موت تک کا فاصلہ پلک جھپکتے میں طے کر لیا۔ اس کڑے وقت میں ماسٹر جی کے دیرینہ دوست ماسٹر وینائیک نے کولہا پور اپنے پاس بلایا اور پھر اپنی کمپنی کے ساتھ بمبئی لے آئے۔ نئی مصیبت یوں پڑی کہ وینائیک بھی چل بسے اور یوں 1948 میں ماسٹر غلام حیدر نے لتا کے سر پہ ہاتھ رکھا۔

ماسٹر غلام حیدر اس وقت چوٹی کے موسیقار تھے۔ وہ پاکستان سے ایس مکھرجی کی فلم شہید کے لیے موسیقی ترتیب دینے دوبارہ بمبئی گئے اور آرکسٹرا میں کسی کے کہنے پر نئی بچی کو ایک بار سن لینے پر راضی ہو گئے۔ ماسٹر جی فلم شہید کے لیے یہ نئی آواز استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن ایس مکھر جی نے کہا نہیں، اس بچی کی آواز بہت پتلی ہے یہ نہیں چلے گی۔

ماسٹر غلام حیدر بچی کے ساتھ ریلوے سٹیشن کی طرف چل پڑے اور راستے میں اس نئی آواز کی مناسبت سے ایک گیت کی دھن تیار کی جو ان کی دوسری فلم مجبور (1948)میں دل میرا توڑا کے بول کے ساتھ شامل ہوا۔ یہ گیت انل بسواس نے سنا اور اس طرح کھیم چند پرکاش تک نئی آواز کی خبر پہنچی۔

زندگی کیسے کیسے عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ کمال امرہوی کی فلم محل (1949) ان دنوں بننے کے مرحلے میں تھی کہ ایک دن اس کے موسیقار کھیم چند پرکاش نے کُم کُم کے نام سے مشہور اُمّہ دیوی، اداکارہ جو اچھا گا لیتی تھیں، کو ایک گیت گانے کی پیشکش کی۔ کُم کُم نے کاردار پروڈکشن ہاؤس سے معاہدے کی وجہ سے انکار کر دیا۔

گیت نوآموز لتا کو مل گیا اور اس گیت نے ہندوستانی سینما کی تاریخ بدل کے رکھ دی۔ یہ لتا کا پہلا ہٹ گیت ’آئے گا آنے والا‘ تھا۔

اس گیت کے بعد انل بسواس نے انوکھا پیار نامی فلم میں لتا سے 10 گیت گوائے۔ اس کے بعد راج کپور کی فلم برسات میں شنکر جیکشن کی موسیقی اور لتا کی آواز کا جادو پس پردہ موسیقی کے نئے عہد کا اعلان تھا۔

برسات 1949 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس وقت کے سب سے بڑے موسیقار نوشاد کی فلم انداز اور حسن لال بھگت رام کی فلم بڑی بہن بھی اسی سال ریلیز ہوئیں اور ایک ہی سال میں لتا جی نے ثریا، زہرہ بائی امبے والی، امیر بائی کرناٹکی، گیتا دت اور شمشاد بیگم جیسی اس وقت کی معروف ترین آوازوں کا یکلخت پتہ صاف کر دیا۔ اب لتا نمبر ون تھیں اور کوئی ان کے قریب تو کیا ان کی خاک کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔

ماسٹر غلام حیدر نے ایس مکھرجی سے کہا تھا: ’آپ ابھی اس آواز کو چاہے پسند نہ کریں لیکن ایک وقت آئے گا موسیقار اور سرمایہ کار اس آواز کے تلاش میں سر کے بل قطار اندر قطار آئیں گے۔‘

یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور تب لتا نے ادھار چکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

دلیپ کمار نے مہاراشٹر ہونے پر ان کے تلفظ پر طنز کیا تھا۔ نو برس بعد فلم مسافر (1957) میں ٹریجیڈی کنگ کو ایک گیت اپنی آواز میں گانا تھا جس میں لتا شریک گلوکارہ تھیں۔

بلاشبہ پیشہ ور گلوکار نہ ہوتے ہوئے دلیپ کمار نے ’لاگی چھوٹے نا چاہے جیا جائے‘ بہت ہی عمدہ گایا لیکن لتا نے کچھ ایسی تانیں لگائیں کہ دلیپ صاحب کا اچھا خاصا گانا بھی معمولی ہو کر رہ گیا۔ اس کے بعد دونوں میں 13 برس تک بات چیت بند رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بالی وڈ شو مین راج کپور کی سب سے بڑی فلم میرا نام جوکر (1970)، برسات کے بعد پہلی فلم تھی جس میں لتا کی آواز شامل نہ تھی۔ فلم بری طرح پٹ گئی اور راج کپور بادل ناخواستہ لتا سے صلح کرنے پر مجبور ہوگئے۔

لتا نے گیتوں کی رائیلٹی اور اگلی فلم بوبی (1973) کے لیے شنکر جیکشن کی جگہ بطور موسیقار لکشمی کانت پیارے لال کو سائن کرنے کی شرائط رکھیں جو فوراً مان لی گئیں۔ راج کپور کا شو شنکر جیکشن، نرگس اور مکیش کے بغیر ممکن تھا لیکن لتا کو منہا کرنے سے اس کی پوری عمارت ڈولنے لگتی۔

سلل چودھری نے کہا تھا: ’ہم سب موسیقار کسی نہ کسی طرح لتا سے تخلیقی لگاؤ کا رشتہ رکھتے ہیں۔‘ جیسے ہی اس رشتے کے تار و پود بکھرے سی رام چندر جیسے مہان سنگیت کار کا پورا کیریئر ہی ڈوب گیا۔

ایس ڈی برمن کو چار سال بعد دوبارہ لتا کی طرف لوٹنا پڑا۔ 1967 میں جب لتا نے اپنے بہترین 10 گیت چنے تو اس میں انل بسواس، ایس ڈی برمن اور شنکر جیکشن کا ایک گیت بھی شامل نہ تھا۔ یہ لتا کا ایک خاموش پیغام تھا کہ موسیقار چاہے جتنا مرضی بڑا نام رکھتا ہو لتا کو رتی بھر پرواہ نہیں۔

بالی وڈ کے گولڈن پیریڈ میں اوپی نیّر کے سوا کسی بھی موسیقار سے لتا کے گیت الگ کر کے دیکھیے ان کا بہترین کام بے رنگ ہو جائے گا۔

جب لتا جی نے گانا شروع کیا اس وقت فلم سنگیت کو کلاسیکل گلوکار نہایت حقارت سے دیکھتے تھے۔ لتا جی نے ابتدا میں کلاسیکی موسیقی سیکھنا شروع کر دی لیکن جیسے ہی ماسٹر غلام حیدر کو معلوم ہوا انہوں نے پاکستان سے خط لکھا کہ ’آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ آپ کی آواز بہتے ہوئے مدھر دریا کی سی ہے۔ کلاسیکی انداز چناب کی روانی کو مجروح کر دے گا۔‘

1953 میں استاد بڑے غلام علی خان امرتسر گئے تو پنڈت یس راج ان سے ملنے ہوٹل پہنچے۔ اچانک ایک گیت کی آواز سنائی دی یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا۔ جب گیت ختم ہوا تو بڑے غلام علی خاں نے کہا ’کمبخت کبھی بے سری ہوتی ہی نہیں۔‘

لتا سے پہلے گلوکاری فلم آرٹ کا حصہ تھی لتا اور رفیع نے اسے الگ آرٹ بنا دیا اور اس بلندی تک لے گئے جہاں کسی دوسرے کا نام و نشاں تک نہیں ملتا۔

فلم کی دنیا میں کیسی کیسی ہنگامہ خیر ہوائیں چلیں، کیسے کیسے چہرے بجھ گئے اور کتنے ہی تخلیق کاروں کے سوتے خشک ہو گئے لیکن لتا کی لے اس شور میں کبھی گم نہ ہو سکی۔ کتنی نسلوں نے لتا کی آواز میں محبت کرنا سیکھا، اپنی تنہائی کو مٹایا اور زندگی کا بوجھ اٹھانے میں مدد لی۔ فن کے بغیر زندگی نامکمل ہے اور لتا کے بغیر فن ادھورا۔

 1989 میں لتا کی عمر 60 برس تھی لیکن ان کا گیت ’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نا‘ سن کر ایسا لگتا ہے جیسے 20 سالہ لڑکی گا رہی ہے۔ اس گیت کو پچھلے تیس برس کا مقبول ترین گیت سمجھا گیا۔

50 کی دہائی میں لتا جی نمبر ون تھیں تو 90 کی دہائی میں بھی بہترین گیت انہی کی آواز میں امر ہوئے۔ زیادہ نہیں تو گلزار کی فلم لیکن اور رودالی کے گیت ہی سن لیجیے۔ اگر 1949 میں انہوں نے برسات کے لیے نو گیت گائے تو 51 برس بعد ویر زارا کے لیے بھی اتنے ہی گیت گا کر صدا بہار گلوکارہ ہونے کا عملی ثبوت دیا۔

لتا جی کی ایسی بے مثل کامیابی دیکھتے ہوئے کروڑوں لوگ سوچتے ہوں گے کاش وہ لتا منگیشکر ہوتے۔ جاوید اختر نے جب ان سے پوچھا کہ آپ اگلے جنم میں کیا بننا چاہیں گی تو انہوں نے کہا ’کچھ بھی، لیکن لتا منگیشکر نہیں۔‘ جی ہاں! سنگھرش کے ابتدائی دنوں کا سایہ آسیب کی مانند ساری زندگی لتا جی کا پیچھا کرتا رہا۔

ایک تلخی جو ان کے مزاج کا حصہ بن گئی اور وہ کبھی اپنا نجی جیون سریلا نہ بنا سکیں۔ کروڑوں سماعتوں میں امرت گھولنے والی لتا جی ایسے ذائقے سے آشنا نہ ہو سکیں جو ان کی تلخی مٹا سکتا۔ شاید موت سے انہیں مکتی مل گئی ہو۔ ان کا شریر راکھ ہو جائے گا لیکن ان کی آتما جو ان کی آواز ہے وہ زندگی کو ہمیشہ خوشگوار بناتی رہی گی۔

دن ڈھلے جہاں رات پاس ہو

زندگی کی لو اونچی کر چلو

یاد آئے گر کبھی، جی اداس ہو

میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے

زیادہ پڑھی جانے والی فن