افغان طالبان ٹی ٹی پی کی موجودگی کی تحقیقات کر رہے ہیں: ترجمان

پاکستان کے ضلع کرم میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے حملے کے بعد افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اس کی تصدیق کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔

پاکستان فوج کے اہلکار تین اگست کو  ضلع خیبر  میں  پاکستان -افعانستان سرحد پر نصب باڑ پر  ڈیوٹی پر مامور۔ پاکستان فوج کے مطابق چھ فروری کو افغانستان سے آئے دہشت گردوں نے ضلع کرم میں سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا (اے ایف پی / فائل)

افغان طالبان کے نائب ترجمان کا کہنا ہے کہ انہیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر مسلح گروہوں کی افغانستان میں موجودگی اور پاکستان پر حملوں کے حوالے سے کوئی مصدقہ دستاویزات یا شواہد فراہم نہیں کیے گئے ہیں جبکہ مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان پر افغانستان سے حملے کے الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ 

رواں ماہ چھ فروری کو پاکستان فوج نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ افغانستان سے آئے دہشت گردوں کی خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں فائرنگ سے پانچ سکیورٹی اہلکار جان کھو بیٹھے تھے۔

تاہم وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغان طالبان کے نائب ترجمان انعام اللہ سمنگنی نے کہا ہے کہ ’پاکستانی شدت پسندوں کی افغانستان میں موجودگی کے شواہد نہیں ملے ہیں اور پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہییں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ طالبان اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہ دیا جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو طالبان اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔

ادھر افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ان الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ عسکریت پسند افغان سرزمین پر سے حملے کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے سات فروری کو مشال ریڈیو کو ایک ٹیکسٹ پیغام میں کہا کہ ’ہماری تحقیقات جاری ہیں۔ ہم کسی کو بھی اپنی سرزمین کو اس طرح استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

انٹرنیشنل کرائسسز گروپ نامی ایک تنظیم نے چار فروری کو ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ افغان طالبان ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں جو مبینہ طور پر افغان سرزمین کا استعمال کر کے پاکستان کی اندرونی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اس حوالے سے انعام اللہ سمنگنی نے کہا ہے کہ انہیں افغانستان میں پاکستانی شدت پسندوں کی موجودگی کے شواہد فراہم نہیں کیے گئے ہیں لہذا وہ اس حوالے سے بات نہیں کر سکتے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے اتوار چھ فروری کو ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان سے آئے دہشت گردوں کی خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں فائرنگ سے پانچ سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں شدت پسندوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

طالبان کے نائب ترجمان انعام اللہ سمنگنی نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ’فی الحال وہ معیشت جیسے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح کے مسئلہ پر بھی بات کریں گے لیکن فی الحال نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا