اپیلیوں پر مریم نواز کے دستخط ہیں تو ٹرسٹ ڈیڈ جعلی نہیں: عدالت

عدالت نے کہا: ’ہم نے دیکھنا ہے کہ ملزمان کے خلاف شواہد یا شہادتیں موجود ہیں یا نہیں؟ عدالت نے صرف اسی بنیاد پر سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنا ہے۔'

مریم نواز  اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کر رہی ہیں (تصویر: ذیشان ملک/ ٹوئٹر)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں کہا ہے کہ اگر مریم نواز اور حسین نواز کے دستخط ٹرسٹ ڈیڈ پر موجود ہیں اور وہ اسے تسلیم کرتے ہیں تو وہ دستاویزات جعلی نہیں ہیں۔

مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیل اور بریت کی متفرق درخواستوں پر جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں ٹرسٹ ڈیڈ پر موجود دستخطوں سے متعلق کہا کہ اگر مریم نواز اور حسین نواز کے دستخط موجود ہیں ’تو یہ جعل سازی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اگر حسین نواز آ کر کہہ دیتے کہ دستخط ان کے نہیں تو پھر بات جعلسازی کی طرف جاتی۔‘

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم نے ٹرائل کورٹ کے دوران یہ ثابت کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے اور وہ بینیفشل اونر ہیں۔ مریم نواز نے سپریم کورٹ میں متفرق درخواستوں کے ذریعے ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی تھی۔‘

نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ جب وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں تو کہا کہ یہ دستاویز درست ہے۔ مریم نواز کی جانب سے اس دستاویز کو تسلیم کیا گیا ہے۔

اس پر عدالت نے سوال کیا کہ ’جب آپ ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی کہتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ ٹرسٹ ڈیڈ کا فونٹ کیا تھا اس پر بعد میں آتے ہیں۔ کیا کہیں سے ثابت ہوا کہ مریم نواز کے اس ڈیڈ پر دستخط نہیں؟‘

جواب میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’نہیں ایسا کہیں ثابت نہیں ہوا۔‘

جسٹس عامر فاروق نے اگلا سوال کیا کہ کیا کہیں یہ ثابت ہوا کہ اس پر حسین نواز کے دستخط نہیں؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نہیں ایسا بھی کہیں ثابت نہیں ہوا۔

اس کے بعد جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر دستاویز جعلی نہیں، ’پری ڈیٹڈ‘ کہلائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ پر دونوں دستخط کرنے والے آج بھی کہتے ہیں کہ یہ ان کی ڈیڈ ہے، کیپٹن صفدر کو صرف اس بات پر سزا ہوئی کہ یہ ان دستخطوں کے گواہ تھے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دیکھنا ہے کہ ملزمان کے خلاف شواہد یا شہادتیں موجود ہیں یا نہیں؟ عدالت نے صرف اسی بنیاد پر سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنا ہے۔‘

جسٹس عامر فاروق نے مریم نواز کے وکیل سے کہا کہ اگر آپ ثابت کر دیں کہ استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکام ہوئی تو باقی باتوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ’ثبوت موجود نہ ہوئے تو پانامہ کیس ایک طرف رہے گا ہمارا فیصلہ کچھ اور ہو گا، اگر ثبوت موجود ہوئے تو بھی یہ عدالت اپنا فیصلہ آزادانہ دے گی۔

’سپریم کورٹ کی آبزرویشنز ابتدائی نوعیت کی تھیں شواہد دیکھ کر نہیں۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشنز 184/3 میں تھیں ہم ٹرائل کا ریکارڈ دیکھیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ نیب اپنا کیس شواہد سے ثابت کر سکا یا نہیں۔ ’آپ صرف یہ ثابت کر دیں نیب کیس ثابت نہیں کر سکا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔‘

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

آج کی سماعت میں مریم نواز کے وکیل نے روسٹرم پہ آ کر دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ 'عدالت میں میں ماضی کے واقعات کا بتانا چاہتا ہوں کہ کس ترتیب میں یہ معاملہ چل رہا تھا۔ میں نے عدالت سے کہا تھا کہ ضرورت ہوئی تو مزید دلائل بھی دوں گا۔ نیب نے میرے سابقہ دلائل پر تحریری جواب دیا ہے۔ نیب کا جواب میں نے دیکھ لیا ہے۔ اس کارروائی کو عدالت نے منظم کرنا ہے۔'

جسٹس عامر فاروق نے وکیل عرفان قادر سے کہا کہ آپ تجویز دیں کہ سماعت کو کس طرح آگے بڑھایا جائے؟ اس پر وکیل نے کہا 'میں مزید دلائل کا آغاز کرتا ہوں جو مکمل ہونے پر نیب کو موقع دیا جائے۔‘

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا: ’کیا آج کی عدلیہ سے وہ غلطیاں سرزد نہیں ہوئیں جو پہلے کی عدلیہ سے ہوئیں؟ ماضی میں ایسے کیسز عدالتی تاریخ میں متنازعہ رہے ہیں، انصاف کے قتل کے حوالے سے برطانیہ میں دو کیسز کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ پراسیکیوشن نے شواہد پلانٹ کیے تھے اور وہ سزائیں کالعدم ہوئی تھیں۔'

عرفان قادر نے کہا: ’پانامہ کیس عمران نیازی بمقابلہ نواز شریف تھا۔ نواز شریف کو بطور وزیراعظم ہٹایا گیا، جس کے بعد عمران خان کی حکومت بنی لیکن نواز شریف کو ہٹانے کے لیے آئینی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔' اس نکتے پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر ہوئی؟ عرفان قادر نے جواب دیا: 'سپریم کورٹ نے لکھ دیا تھا کہ عدالتی آبزرویشنز سے ٹرائل متاثر نہیں ہو گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ واحد پہلو ہے بلکہ اس کے ساتھ دیگر عوامل بھی ہیں۔‘

اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رینٹل پاور، حج انتظامات میں بدانتظامیوں سمیت دیگر کیسز بھی تفتیش کے لیے متعلقہ اداروں کو بھجوائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عرفان قادر نے جواب دیا کہ عدالت نے ان دیگر کیسز میں مانیٹرنگ جج نہیں بنائے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی آبزرویشنز کو سپروائز کیا ہے۔ اس کے علاوہ نیب نے اس کیس میں بنیادی جزئیات ہی پوری نہیں کیں۔ اثاثے کی اصل قیمت اور ذرائع پہلے بتائے ہی نہیں گئے۔

ان کا کہنا تھا: ’اس بات پر تو عدالت چاہے تو مریم نواز کو آج ہی بری کر سکتی ہے۔ نیب آرڈیننس کی سیکشن نائن اے 5 کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔'

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ انوسٹی گیشن اور ٹرائل کی خامیوں کی وکیل نے نشاندہی کرنی ہے اور عدالت نے اسے جانچنا ہے۔

عرفان قادر نے نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ نیب نے اس کیس میں تفتیش ہی نہیں کی تو پھر ریفرنس کیسے دائر کیا؟

انہوں نے کہا کہ، ’پاکستان میں حکومت کو گھر بھجوانے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ مارشل لا اور دوسرا صدر پاکستان کے ذریعے گھر بھجوانے کے لیے استعمال ہوا۔‘ عرفان قادر کی اس دلیل پر جسٹس عامر فاروق نے مداخلت کر دی اور کہا: ’آپ اس میں نہ جائیں، ہم اس پر نہ ہاں کر سکتے ہیں اور نہ ناں۔'

جسٹس محسن اختر کیانی استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ نیب کیا شواہد لایا تھا اور کیا وہ متعلقہ تھے یا نہیں؟ عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط کو ثبوت کے طور پر ٹریٹ کیا گیا۔

’یہ سارا کیس ہی اس لیٹر پر ہے۔ باہمی قانونی معاونت کے لیے برٹش ورجن آئی لینڈ کو خط لکھا گیا تھا۔ اس کے جواب میں جو خط آیا اسے ثبوت کے طور پر لیا گیا۔ احتساب عدالت نے مریم نواز کو برٹش ورجن آئی لینڈ کے ایک خط پر سزا دی اور برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط کو بنیادی شہادت تصور کیا گیا۔'

عرفان قادر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا: ’برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط میں کہا گیا کہ مریم نواز اپارٹمنٹس کی مالک ہیں، احتساب عدالت نے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط کے جواب میں مریم نواز کچھ پیش نہ کرسکیں۔ احتساب عدالت نے یہ بھی کہا مریم نواز اب اس لیٹر کے جواب میں اپنا ثبوت لائیں۔ یہ خط بھی نیب نے نہیں منگوایا، ٹرائل سے قبل جے آئی ٹی کی درخواست پر آیا۔'

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا: ’ایک دستاویز ہے جس میں نام آ گیا ہے۔ جس دن وہ کمپنی بنی، اس دن سے بتائیں کہ وہ کمپنی کس کی رقم سے بنی؟ نیب ان سوالوں کا جواب دیں، ہم اب التوا نہیں دیں گے۔ اب ہم عدالت کا وقت ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ اس سوال کے جواب کے بعد اٹھیں گے۔'

جسٹس عامر فاروق نے نیب سے سوال کیا’: مریم صفدر کے خلاف پراسیکیوشن کا کیا کیس ہے؟ اس کا لب لباب بتا دیں۔ ایک لیٹر برطانیہ سے آیا وہاں کے کسی بندے نے آکر جمع کرانا تھا یا نہیں؟

اگر بیفیشل مالک ثابت بھی ہو جائیں توپھر مریم نواز کا کردار کیا ہوگا؟ اگر والد نے جائیداد غیر قانونی بھی بنا کر بیٹے کو دی تو کیا بیٹی قصور وار ہوگی؟‘

نیب پراسیکیوٹر نے کہا، ’جب اس نکتے پر ہم پہنچیں گے تو اس پر بھی بات کریں گے۔'

لیکن عدالت نے کہا: ’نہیں، نیب پہلے ہمارے سوالات کا جواب دے ہم پھر مریم نواز کے وکیل کو سنیں گے۔ ٹرسٹ ڈیڈ سادہ کاغذ ہے یا کوئی رجسٹرڈ ڈاکومنٹ ہے؟‘

اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی خود کہتی ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹر نہیں ہے۔ مریم نواز کو ٹرسٹی بنایا گیا وہ اس کی پرنسپل اونر نہیں ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ مریم نواز کا دعویٰ تھا وہ اس جائیداد کی ٹرسٹی ہیں۔ ’ہم نے شواہد سے ثابت کیا کہ وہ ٹرسٹی نہیں بینیفشل مالک ہیں۔ ہم نے اس ٹرسٹ ڈیڈ میں جعلسازی ثابت کی ہے، وہ ٹرسٹ ڈیڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی پھر جے آئی ٹی کے سامنے تصدیق کی۔ اُس جعلسازی کیخلاف الگ سے کارروائی اپیلوں کے بعد ہونی ہے۔‘

عدالت نے مریم نواز کے وکیل عرفان قادر سے سوال کیا کہ اگر ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلقہ دستاویزات انہوں نے دیکھیں تو عرفان قادر نے جواب دیا کہ ابھی انہوں نے دیکھا نہیں۔

عدالت نے عرفان قادر کو مکمل فائلز پڑھ کر آنے کی ہدایت دیتے ہوئے مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں اور بریت کی متفرق درخواست پر سماعت 17 فروری تک ملتوی کر دی۔

ڈھائی گھنٹے کی طویل سماعت کے دوران مریم نواز مسلسل تسبیح پڑھتی اور ورد کرتی رہیں۔ کمرہ عدالت میں ہی اپنی نشست پر بیٹھ کر انہوں نے نماز بھی ادا کی۔ پہلے عرفان قادر اور پھر نیب پراسیکیوٹر عدالت کے سوالوں کے جواب دیتے رہے۔

کیس کا سیاق و سباق

سنہ 2018 جولائی میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 11 اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو آٹھ سال جب کہ داماد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں 19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو سنائی گئی سزا معطل کرتے ہوئے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

نواز شریف کو اپیلوں والے کیس میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا جبکہ مریم نواز اور صفدر کی اپیلوں کو الگ کر دیا تھا۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں احتسا ب عدالت کے جج ارشد ملک نے قید کی سزا سنائی تھی۔ مگر اس دوران ان کی ایک متنازعہ ویڈیو سامنے آئی جس کے بعد مذکورہ جج کے خلاف تادیبی کارروائی کرتے ہوئے اُنھیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔

یہ بھی واضح رہے کہ نواز شریف نے جج ارشد ملک کے مبینہ متنازع فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر رکھی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان