میڈونا کی بھوک، نسوانی جسم کی حقیقت اور بڑھتی عمر

میں چاہتی تھی کہ میڈونا ایک زندہ دل فرد کی طرح زندگی گزاریں۔ وہ اپنی عمر نہ چھپائیں لیکن اب میرا خیال ہے کہ ایسا سمجھنا حماقت تھی کیونکہ یہ ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

میڈونا نے 1985 میں امریکی مزاحیہ فلم ’ڈیسپریٹلی سیکنگ سوسن‘ میں ایک عوامی کمرہ آرام میں بیٹھ کر سرعام اپنی بغلوں میں ہیئر ڈرائر استعمال کرکے نسوانی جسم کی حقیقت سمجھنے کے لیے مجھے پہلا سبق دیا تھا۔

جب رواں ماہ گانوں کی 14 ویں البم کے اجرا پر امریکی پوپ سٹار میڈونا کو  زائد العمری کی بنیاد پر منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس حوالے سے میں نے بھی اپنے اندر گناہ چھپا رکھا ہے۔

2012 میں ریلیز ہونے والے البم ’ایم ڈی این اے‘ پر تبصرے کے دوران میں نے لافانی جوانی کا تاثر برقرار رکھنے کے لیے وسائل کے بے دریغ استعمال کے میڈونا کے فیصلے کے بارے میں گھٹیاپن کا مظاہرہ کرتے گلوکارہ کو ’تھکا ماندہ اور ناخوش‘ دکھائی دینے کے لیے چھوڑ دیا تھا اور میں خود کو بھی ایسا ہی محسوس کر رہی تھی۔

اُس وقت میری عمر 34 اور میڈونا کی 54 برس تھی۔ میرے ہاں حال ہی میں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی تھی۔ میں اپنے ارد گرد موجود خواتین کی اس مسلسل بچکانہ گفتگو پر رو دینا چاہتی تھی جس میں وہ اپنے جسموں کو بچے کی پیدائش سے پہلی والی حالت میں لانے کے لیے خوراک، ورزش اور کاسمیٹک سرجری کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرتی تھیں۔

ان خواتین کو مختلف جرائد میں شائع ہونے والی مشہور خواتین کی تصاویر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید وقت نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ان خواتین نے مشہور خواتین کی تصاویر دیکھنا جیسے اپنا فرض بنا لیا تھا۔

مجھے لگتا تھا کہ اگر کسی میں اتنی طاقت ہو کہ وہ اس ’کچرے‘ پر ایک بڑا، سٹیڈیم کے حجم جتنا ’وی‘ کا نشان لگا دے، تو وہ شخصیت میری نوعمری کی ہیرو میڈونا تھیں۔ پوپ سنگر نے اپنے آپ کو کئی بار دریافت کیا تھا جس سے مجھ جیسی لڑکیاں آزادی اور شناخت کے امکانات سے روشناس ہوئیں۔

میڈونا نے 1985 میں امریکی مزاحیہ فلم ’ڈیسپریٹلی سیکنگ سوسن‘ میں ایک عوامی کمرہ آرام میں بیٹھ کر سرعام اپنی بغلوں میں ہیئر ڈرائر استعمال کرکے نسوانی جسم کی حقیقت سمجھنے کے لیے مجھے پہلا سبق دیا تھا۔ یہ فلم دیکھنے سے کچھ عرصہ قبل کپڑے تبدیل کرنے کے کمرے میں میری ایک دوست کے ہاتھ سے جسم  پر لگانے والی خوشبو کی بوتل گر جانے پر اردگرد سے ہنسی کی آوازیں سنائی دی تھی۔ خوشبو کی بوتل فرش پر لڑھکتی دیکھ کر شرم سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا کیونکہ بوتل کے لیبل پر ’اضافی تحفظ‘ کے الفاظ درج تھے۔

ہم سب کے بارے میں امید کی جارہی تھی کہ ہم خوشبو استعمال کریں گی لیکن احتیاط کے ساتھ، قمیض کے نیچے جسم پر، یہ تاثر دیتے ہوئے کہ خوشبو کی تیاری میں چاہے جو بھی کیمیکل استعمال کیا گیا ہو، ہمارے جسم سے یہ خوشبو قدرتی طور پر آتی ہے۔ اس کے بعد میڈونا بڑے پردے پر بڑے ناز کے ساتھ نمودار ہوئیں۔ اپنے جسم کے معاملے میں دیانتداری کا مظاہرہ کرتے اور یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ انہیں پسینہ آتا ہے۔ انہوں نے اپنے جسم کو چھونے والی ہوا کا لطف اٹھایا اور اس تمام وقت وہ پرسکون دکھائی دیں۔

میڈونا نے پُرلطف پوپ گلوکاری میں جس بے خوفی کا مظاہرہ کیا مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ مجھے یہ بھی بہت اچھا لگا کہ میڈونا کو شہرت، پیسے، سیکس، محبت اور ثقافتی اہمیت کی بھوک پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ ووگ، ایکسپریس یور سیلف اور’واٹ اِٹ فیلس لائیک فار اے گرل‘ جیسے گانوں کے ساتھ ہی میڈونا نے خواتین، ہم جنس پرست اور خواجہ سرا برادری کے لیے ماحول کو تبدیل کردیا، لیکن یہ تاثر کبھی نہیں دیا کہ وہ ان رویوں کو درست سمجھتی ہیں۔

1990 کی دہائی میں ’The Immaculate Collection‘کے لیے ریکارڈ کروائے گئے گانے ’Rescue Me‘ کے بعد میڈونا نے تسلیم کیا وہ تندخو، کمزور، کم عقل، تصنع پسند اور ایک بلا ہیں۔’آنکھیں ملتے ہوئے‘، ’اس دنیا کے بارے میں جسے میں فتح کرنا چاہتی ہوں‘ اور ’دو اور بھول جاؤ‘ جیسے گانوں کے الفاظ سے بھی یہ اعتراف ظاہر ہوتا ہے۔

میڈونا محبت اور نفرت کا اظہار کرتی ہیں اور دنیا ان جذبات کو لوٹا دیتی ہے۔ گلوکارہ لیڈی گاگا نے 2017 میں اعتراف کیا تھا کہ وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ میڈونا انہیں دیوار کی طرف دھکیلیں، انہیں بوسہ دیں اور بتائیں کہ وہ کچھ نہیں ہیں۔

میں چاہتی تھی کہ میڈونا ایک زندہ دل فرد جیسے کہ برطانوی فیشن ڈیزائنر ویوئن ویسٹ ووڈ کی طرح زندگی گزاریں اور لباس کی جھالر تلے جسم پر پڑی جھریاں دکھائیں لیکن میں یہ نہیں چاہتی  تھی کہ وہ گانا بند کردیں یا زیر جامہ پہن کر رقص کریں۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ میڈونا اپنی عمر نہ چھپائیں اور میں دیکھوں کہ ایسا کرنا ان کے لیے کس حد تک ممکن تھا؟

اب میرا خیال ہے کہ ایسا سمجھنا حماقت تھی کیونکہ دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لی جانے والی گلوکارہ کے طور پر میڈونا کے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ میڈونا کو ہماری توجہ کی مسلسل ضرورت ہے۔ بعض اوقات انہیں ہماری پسندیدگی چاہیے اور بعض اوقات انہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ انہیں ایک ضدی فرد کے طور قبول کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میڈونا کو مسلسل تنقید کا سامنا ہے اور یہ تنقید مرد گلوکاروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اپنے زیادہ وزن کے ساتھ کی بورڈ کے پیچھے بیٹھ کر جبکہ فوٹوگرافر اپنے کیمرے میڈونا کے جھریوں بھرے ہاتھ پر فوکس کر رہے ہوں، مجھے اس توقع کا کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے جسم پر توجہ نہ دیں۔ میڈونا کا کام بہت مشکل ہے اور مجھے کوئی حق نہیں کہ ان کی جانب سے کام کی مشکلات کا اظہار کرنے پر برا مانوں۔

2016 میں میڈونا نے ’بل بورڈ‘ میگزین کی جانب سے موسیقی کی دنیا میں ’ ویمن آف دی ایئر ‘ ایوارڈ قبول کرتے ہوئے منتظمین کا شکریہ ادا کیا تھا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ گلوکارہ کے طور ان کے 34 سالہ کیریئر کے تسلسل کے لیے ان کی صلاحیت تسلیم کی گئی حالانکہ انہیں صنفی امتیاز، عورت بیزاری، تحمکانہ رویے اور بدتمیزی کا سامنا رہا۔

میڈونا نے کہا کہ وہ برطانوی گلوکار اور اداکار ڈیوڈ بووی سے متاثر ہیں، جنہوں نے انہیں سوچنے پر مجبور کیا کہ قاعدے قانون کا کوئی وجود نہیں ہے، لیکن میں غلط تھی۔ قاعدہ قانون اُس وقت نہیں ہوتا جب آپ مرد ہوں لیکن اگر آپ خاتون ہوں تو قاعدہ قانون بھی ہوتا ہے۔

میڈونا نے مزید کہا کہ اگر آپ خاتون ہیں اور گاتی ہیں تو آپ کو ہوشیاری سے کام لینا ہوگا۔ آپ خوبصورت اور پرکشش ہو سکتی ہیں لیکن زیادہ ہوشیاری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صورت حال سے مطابقت نہ رکھنے والی رائے نہ دیں۔ مرد آپ کو انسان کی بجائے ایک ’وجود‘ سمجھیں تو انہیں سمجھنے دیں۔ آپ سیکس ورکر کی طرح کا لباس بھی پہن سکتی ہیں لیکن کبھی سیکس ورکر کا کردار نہ اپنائیں اور نہ سیکس کے حوالے سے اپنی سوچ لوگوں سے شیئر کریں۔

گلوگارہ نے مزید کہا کہ جیسا مرد چاہتے ہیں انہیں ویسا بن کر دکھائیں لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مردوں کی موجودگی میں خواتین کو اُس روپ میں دکھائی دیں کہ انہیں آپ کی موجودگی سے سکون ملے۔ سب سے آخری بات یہ کہ اپنی عمر میں اضافہ نظر نہ آنے دیں کیونکہ یہ ایک گناہ ہے جس پر آپ کو تنقید اور تحقیر کا نشانہ بنایا جائے گا اور آپ کا گانا ریڈیو پر نہیں چلے گا۔

ایک بار میڈونا کو حقوق نسواں کی علمبرداروں جرمین گیئر اور کیمیل پیگلیا نے سراہا تھا، لیکن 2006 میں مساوی طور مضبوط کردار کی مالک 67 سالہ جرمین گیئر نے اپنے بڑھاپے میں میڈونا کو مسترد کردیا تھا۔ اس وقت میڈونا کی عمر 48 برس تھی۔

دنیائے موسیقی کے معروف جریدے ’بل بورڈ ‘ کی ایک تقریب سے خطاب میں میڈونا نے کہا تھا کہ انہیں یاد ہے کہ ان کی خواہش تھی کہ ان کی کوئی ہم پلہ خاتون ہوتیں جس کی طرف وہ مدد کے لیے دیکھتیں۔

میڈونا کے مطابق حقوق نسواں کی عملبردار کیمیل پیگلیا نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو ایک ’وجود‘ بنا کر پیش کیا جس سے خواتین کی ساکھ مجروح ہوئی۔ میڈونا کہتی ہیں کہ میرے خیال میں اگر کیمیل پیگلیا حقوق نسواں کی کارکن ہیں تو آپ پرکشش نہیں ہیں؟

میڈونا نے اس تقریب میں گلوکار مائیکل جیکسن، پرنس، وئیٹنے ہوسٹن اورڈیوڈ بووی کا بھی ذکر کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی بات پر قائم ہیں۔ وہ ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں جو ہر روز نعمتیں شمار کرتے ہیں۔ میڈونا نے مزید کہا تھا کہ وہ تمام خواتین سے کہنا چاہتی ہیں کہ انہیں اتنے عرصے سے استحصال کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگی ہیں کہ مرد ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ درست ہے۔ خواتین کا خیال ہے کہ انہیں کام کی تکمیل کے لیے مرد کی مدد کرنی چاہیے۔ میڈونا کے مطابق بعض بہت اچھے مرد بھی ہوتے ہیں جن کی مدد کرنا بنتا ہے لیکن اس لیے نہیں کہ وہ مرد ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ مدد کے اہل ہیں۔ میڈونا کے مطابق بطور خاتون ہمیں نہ صرف اپنی بلکہ دوسری خواتین کی اہلیت کا احساس کرنا ہوگا۔

 البم ’ریبل ہارٹ‘ (جو مجھے گلوکارہ کی طرف سے موسیقی پر دیانتداری کے ساتھ دوبارہ دی جانے والی توجہ محسوس ہوئی۔ اس سے پہلے ریلیز ہونے والے البم مہارت کا کچھ زیادہ ہی شکار اور ایک جیسے لگتے تھے) کی ریلیز اور ’بل بورڈ ‘ میگزین کی تقریب سے خطاب کے درمیانی عرصے میں میرا میڈونا کے ساتھ ایک بہتر تعلق قائم ہوگیا تھا۔ جب برطانیہ میں موسیقی کے ’برٹ ایوارڈ‘ کی تقریب میں وہ گر کر اٹھیں تو مجھے تحفظ اور فخر کا احساس ہوا۔

میڈونا کی برطانوی سوانح نگار لوسی اوبرائن کہتی ہیں کہ گلوکارہ کی بل بورڈ والی تقریر دیانتداری اور دلیری کی عکاسی کرتی تھی۔ یہ تقریر ہراسانی کے خلاف مہم ’می ٹو‘ شروع ہونے سے پہلے کی گئی۔ میڈونا نے بتایا تھا کہ ایک خاتون کے لیے موسیقی کی دنیا میں اُس مقام پر ہونا جس پر وہ ہیں، حقیقت میں کیسا ہے۔  

 

جب میں نے 2019 میں اپنے فیس بک کے دوستوں سے میڈونا سے متعلق جذبات کے بارے میں پوچھا تو یہ زیادہ تر خواتین ہی تھیں جن کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا کہ وہ گلوکارہ سے محبت کرتی تھیں لیکن اب ان کا وقت گزر چکا۔ انہیں وقار کے ساتھ ریٹائر ہوجانا چاہیے تھا۔ ان خواتین کو مئی میں ’یورو ویژن‘ کے موسیقی کے مقابلے میں بھی میڈونا کی کارکردگی پسند نہیں آئی۔ ایک اور خاتون نے میڈونا کی زیادہ عمر سے بے زاری کے حوالے سے شکایت کو مسترد کرتے ہوئے سوال کیا کہ 20 سال کی میڈونا 60 سال کی میڈونا کو کتنی توجہ دے گی؟

صحافی اور کالم نگار فیونا سٹرجس نے ایک بار کہا تھا کہ ہم سب کو میڈونا کی عمر کے معاملے سے پیچھے ہٹ کر انہیں صرف ان کے گانے کی بنیاد پر جانچنا چاہیے۔ میں اُن سے یقیناً اتفاق کرتی ہوں کہ خواتین کی صلاحیتوں کو کہیں زیادہ سختی سے پرکھا جاتا ہے۔ میں ان لوگوں سے بھی ناراض ہوں جو میڈونا سے کہتے ہیں کہ اب جان چھوڑیں دادی اماں!

میرے نزدیک ایک فن کار کی عمر دلچسپی سے خالی ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ فن کاروں کی موسیقی اور پرفارمنس پر بات ہونی چاہیے لیکن شرط یہ ہے کہ مردوں اور خواتین کے لیے ایک ہی معیار ہو۔

موسیقی کے البموں کے بارے میں میرے کچھ گذشتہ تبصروں میں امریکی موسیقار اور نغمہ نگار نائیل روجرز کی عمر (ان کے ساتھیوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے) اور برطانوی گلوگار موریسے کی سیاست پر بات کی گئی تھی۔ گانوں کی جو البم ہمیں فروخت کی جاتی ہے، اس کی تیاری کے پس منظر میں یہ تمام معاملات شامل ہوتے ہیں۔

آواز، وضع قطع اور موضوعات وقت کے ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مختلف اوقات میں تخلیق کا عمل حد سے بڑھ کر خرابی کا شکار ہو سکتا ہے۔ عمر اور تجربہ جوانی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوسکتے ہیں۔ گذشتہ برس 71 سالہ برطانوی گلوکارہ میرئن فیتھ فل نے حیرت انگیز حد تک خوبصورت البم بنائی تھی۔ اس البم میں وہ خامیاں نہیں تھیں جو اس میں تھیں جو انہوں نے 17 برس کی عمر میں تیار کی۔

2018 میں شائع ہونے والی کتاب ’آوازیں: ایک عظیم گلوکار آپ کی زندگی کس طرح بدل سکتا ہے‘ کے مصنف نک کولمین نے کینیڈین گلوکارہ جونی مچیل کا آخری دنوں کا گانا سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔ یہ نوٹ کیا گیا کہ کس طرح گلوکارہ کی گائیگی ابتدائی برسوں کے مقابلے میں اب شاندار ہو گئی تھی۔ مصنف نک کولمین نے دوسرے گلوکاروں جن میں اریتھا فرینکلن بھی شامل ہیں، کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی گائیگی بہتر نہیں ہوئی۔

زیادہ تر گلوکاروں میں تبدیلی آتی ہے۔ کیا یہ درست ہے کہ اس پر بات کی جائے جو وہ ایک موسیقی کے تبدیل ہوتے آلے کے ساتھ کرتے ہیں؟ حقیقت میں میڈونا کی آواز زیادہ تبدیل نہیں ہوئی اور میرا اس کے ساتھ ربط قائم ہے۔ زندگی سے بھرپور، ہلکی پھلکی اور ابھارنے والی آواز جو جب ضرورت ہو ڈرامائی اور اعترافی ہوجاتی ہے۔  

مجھے میڈونا کے صبر، خوش مزاجی، نیا انداز اور موسیقی اپنانے سے بھی محبت ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے کہ گلوکارہ خواتین کے لیے آواز بلند کرتی ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی تازہ ترین البم ’میڈم ایکس‘ کی تیاری میں فرانسیسی دانشور خاتون سائمن ڈی بووار، امریکی شاعرہ این سیکسٹن، شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ، افسانہ نگار کارلسن میکیولرز، مصورہ ڈوروتھی ٹیننگ، برطانوی مصورہ لیونارا کارنگٹن اور میکسیکن مصور فریدہ کاہلو سے متاثر ہوئیں۔

جریدے ’ووگ‘ سے بات چیت میں میڈونا نے کہا کہ ان ساری خواتین نے ایک آزاد اور غیر روایتی زندگی گزاری اور ان کے تعلقات بھی غیر روایتی تھے۔

میڈونا پیچیدہ شخصیت کی مالک ہیں۔ ان کے حوالے سے میرے جوابات بھی پیچیدہ ہیں اور ہم ایک پیچیدہ دنیا میں زندہ ہیں جہاں میڈونا جیسی ایک خاتون شوبز میں 30 برس سے زیادہ عرصے سے اپنا شاندار کیریئر بچاتی چلی آ رہی ہیں۔

اگر میں دیانتدار ہوں تو آخری بار موسیقی کے جس البم سے میں بے حد متاثر ہوئی وہ 2005 میں ’کنفیشنز آن اے ڈانس فلور‘ تھی۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ’میڈم ایکس‘ اس کے بعد سے ایک بہترین اور بے باک ترین ریکارڈ ہے۔

میڈونا! میں بعض اوقات گھٹیا پن کے مظاہرے پر معافی چاہتی ہوں۔ اس بات پر بھی معذرت خواہ ہوں کہ نئے سُروں، شوز، فلموں کی تیاری اور بچوں کی پرورش اور اپنی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ صنفی امتیاز اور زیادہ عمر سے بیزاری سے بھری اس تہذیب سے اکیلے لڑنے کے لیے بعض اوقات آپ پر دباؤ ڈالا۔

میں بھی ایک تنہا ماں ہوں۔ جب میں آئینہ دیکھتی ہوں تو مجھے بعض اوقات اپنے پیچھے بیٹی دکھائی دیتی ہے جو مجھے عمر چھپانے کے لیے میک اپ کرتے دیکھتی ہے۔ میں حیران ہوتی ہوں کہ میں اسے کیا پیغام دے رہی ہوں۔ یہ کوئی آسان بات نہیں ہے یا ہے؟

میڈونا! میں عمر گزارنے کے سراغ کے لیے آپ کی طرف دیکھ رہی ہوں۔ آپ نے جریدے ’ووگ‘ سے  گفتگو میں کہا ہے کہ آپ کو دکھ ہے کہ اس سلسلے میں آپ کے سامنے کوئی زندہ مثال موجود نہیں ہے۔

شاید یہ درست ہوگا کہ اگر ہم سب بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ یہ سب دوبارہ دریافت کریں۔ موسیقی کی کسی دھن پر آگے بڑھتے اور ایک طرف ہوتے ہم ہمیشہ خود پر قابو نہیں رکھ سکتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فن