موسمیاتی مہم چلانے والے کیا غلطیاں کر رہے ہیں؟

ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ موسمیاتی بحران زیادہ تر آبادی کی اولین ترجیح ہوگی۔ لوگ پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں اور مزید جدوجہد کریں گے، کیونکہ آمدنی انتہائی سطح تک کم ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ لوگ دنیا کے خاتمے کے بجائے مہینے کے اختتام کے بارے میں پریشان ہیں۔

پانچ نومبر 2021 کی اس تصویر میں  سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں  موسمیاتی بحران کے  خلاف جاری ایک مظاہرے میں شریک افراد نے پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ہم میں سے اکثر لوگوں کو ہر صبح جاگتے ہی موسمی بحران کی فکر نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ مہم چلانے والے لوگ اکثر توانائی اور خام مال کی کھپت کو کم کرنے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے، فضلے اور آلودگی کو کم کرنے کے فوائد پر بات کرتے ہیں یا سبز صنعتی انقلاب کو فروغ دیتے ہیں۔

لیکن فیبیئن سوسائٹی اور فاؤنڈیشن فار یورپین پروگریسو سٹڈیز (ایف ای پی ایس) کی نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس سے کام نہیں بن پا رہا۔ یہ تحقیق مہم چلانے والوں کو ایک دوسرا راستہ دکھاتی ہے، جس کی مدد سے وہ زیادہ افراد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ کے تحت شائع کی گئی اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ آب و ہوا کے لیے مہم چلانے والے کارکن اور سیاست دان جو زبان استعمال کرتے ہیں، اس کی وجہ سے وہ آبادی کے کچھ حصوں تک پہنچنے میں ناکام ہیں اور لوگوں کو تحریک سے الگ کر رہے ہیں۔

موسمی بحران لوگوں کے ذہنوں میں ہمیشہ سب سے پہلے نہیں آتا بلکہ بہت سے لوگ اسے اپنے خدشات میں شمار کرتے ہیں۔

 اب یہ صرف متوسط طبقات یا نئے رن وے کی تعمیر روکنے کی خاطر زیر زمین سرنگیں کھودنے کے لیے پر عزم کارکنوں کا تحفظ نہیں ہے۔ لوگ سمجھ گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت عملی اقدام کرے۔

تاہم مستقبل کے کچھ فیصلے سخت ہیں اور آنے والے معرکے میں دائیں بازو کے کچھ لوگ پہلے ہی توانائی کے موجودہ بحران کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں، زیادہ بلوں کے لیے گرین ٹیکسوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور اس خیال سے تیل کی مزید ڈرلنگ چاہتے ہیں کہ تیل کی قیمت کم ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سیاست دانوں، کارکنوں اور مہم چلانے والوں اور کسی بھی ایسے شخص کے لیے آنکھیں کھول دینے والا پیغام ہے، جو اس خطرے سے نمٹنے میں حقیقی دلچسپی رکھتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں تشویش کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی اسے معمولی سمجھا جاسکتا ہے۔

ہمیں بہتر پالیسیوں کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلی پر کارروائی کے ممکنہ فوائد کے بارے میں بات کرنے سے بھی بہتری آ سکتی ہے۔ بالخصوص ایسے گروپوں کے ساتھ گفتگو جو اس بات پر کم یقین رکھتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائی کی ضرورت ہے۔

فیبیئن سوسائٹی اور ایف ای پی ایس نے آگے بڑھنے کا ممکنہ راستہ تلاش کرنے کے لیے ایک سروے شروع کیا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ آبادی کا بڑا حصہ آب و ہوا کے اقدامات کے معاشی فوائد کے بارے میں دلائل پر یقین نہیں رکھتا، وہ چاہے ملازمتیں پیدا کرنے، صنعتی زوال کو موڑنے یا سرمایہ داری نظام کو تبدیل کرنے کے موقع کے طور پر ہی کیوں نہ ہو۔

ہمیں پتا چلا کہ یہ پیغامات صرف ’ان لوگوں کے لیے تبلیغ کرتے ہیں جو پہلے سے تبدیل شدہ‘ ہیں۔ انہوں نے زیادہ متوسط طبقے اور مزدوروں کو قائل کیا، لیکن کام کرنے والے طبقے، بزرگوں اور کنزرویٹوز کو قائل نہیں کیا۔

بعض اوقات اس طرح کی زبان مقصد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ 30 فیصد لوگوں نے ’سبز صنعتی انقلاب‘ کی اصطلاح پر منفی ردعمل یا شکوک و شبہات کا اظہار کیا، جیسے کہ ’آپ خواب و خیالوں کی دنیا میں رہتے ہیں‘ یا یہ ’بے کار‘ ہے۔

کچھ لوگوں کو یہ متضاد معلوم ہو سکتا ہے، لیکن یہ حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ لوگ سیاست دانوں کے بارے میں اتنے شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ وہ نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں یا انقلاب کے امکانات کو ختم کر دیتے ہیں۔

تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اصطلاح  گھڑ کر حد سے زیادہ بیان بازی شروع کر سکتے ہیں۔

’گرین جابز‘ (Green Jobs) کا مطلب مختلف لوگوں کے لیے مختلف چیزیں ہیں، لہذا ہم جو بھی کریں وہ کم سے کم ٹھوس اور مخصوص ہو۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ معاشی پیغامات سب سے مضبوط بالکل نہیں ہیں۔ لوگ آب و ہوا کے بحران اور غیر معاشی فوائد کے درمیان تعلق، خاص طور پر’اچھی زندگی کا حق‘ یا ’فطرت کے ساتھ توازن‘ کی ضرورت سے زیادہ قائل ہوتے ہیں۔ لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہم ’پر ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی خاطر اس پر عمل کریں۔‘

ان پیغامات کا تقریباً تمام گروپوں نے مثبت جواب دیا، جن میں مزدور طبقہ، بوڑھے افراد، کنزرویٹو اور لیو (Leave) ووٹرز شامل ہیں۔

کنزرویٹو اور لیو ووٹرز، جو زیادہ شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں، کے لیے سب سے مقبول دلیل یہ تھی کہ توانائی کے لیے ہمارا انحصار بیرونی ممالک پر کم ہونا چاہیے۔ ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ حالیہ ہفتوں میں یہ احساس مزید بڑھا ہے۔

آب و ہوا کے بحران سے نمٹنا زیادہ ضروری ہوتا جا رہا ہے اور یہ مشکل ہو جائے گا۔ بہت سے آسان اقدامات پہلے ہی کیے جا چکے ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ موسمیاتی بحران زیادہ تر آبادی کی اولین ترجیح ہوگی۔ لوگ پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں اور مزید جدوجہد کریں گے، کیونکہ آمدنی انتہائی سطح تک کم ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ لوگ دنیا کے خاتمے کے بجائے مہینے کے اختتام کے بارے میں پریشان ہیں۔

آب و ہوا کی مہم چلانے والوں کے پاس ایک سخت انتخاب ہے: اپنی زبان بولتے رہیں اور وسیع تر آبادی کو پس پشت ڈال دیں یا ایک مضبوط عوامی اتحاد بنائیں، جو ان کے کمفرٹ زون سے بہت آگے نکل جائے۔ ایسا فیصلہ آسان ہونا چاہیے۔


لیوک رائکس فیبیئن سوسائٹی میں ریسرچ ڈائریکٹر ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ