یوکرین تنازع: گذشتہ سو سالہ تاریخ میں کب اور کیا ہوا؟

ماضی قریب میں یوکرین تنازع کی جڑیں 1920 سے جا ملتی ہیں جب انقلاب روس کے بعد یوکرین کو سویت یونین کا حصہ بنایا گیا اور آئندہ 70 سالوں تک وہ روس کی اس یونین کا حصہ رہا۔

ماضی قریب میں یوکرین تنازع کی جڑیں تلاش کرنے کے لیے سو سال پہلے 1920 کے حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہوگا جب انقلاب روس کے بعد یوکرین کو سویت یونین کا حصہ بنایا گیا تھا۔

مشرقی یورپ میں واقع یوکرین رقبے کے اعتبار سے روس کے بعد سب سے بڑا یورپی ملک ہے۔

چند ماہ سے یوکرین روس کے ساتھ فوجی اور جغرافیائی تنازع کی وجہ سے عالمی مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔

سوموار (21 فروری) کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین سے خود ساختہ علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں دونیتسک اور لوہانسک کو خود مختار اور آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔

روس اور یوکرین کے اس جغرافیائی تنازع کی جڑیں گذشتہ ایک سو سالہ تاریخ میں ہیں۔

آج مغرب کے ساتھ مل کر روس کو مشکل میں ڈالتا یوکرین 1920 سے 1991 تک سوویت یونین کا حصہ رہا ہے۔

نوے کی دہائی میں جب سوویت یونین کا عروج ڈگمگانے لگا تو یوکرین ان پہلے ممالک میں سے تھا، جس نے 16 جولائی 1990 کو یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تقریباً ایک سال بعد 24 اگست 1991 کو یوکرین نے خودمختاری اور مکمل آزادی کا اعلان بھی کر دیا۔

یوکرین نے آزادی تو حاصل کرلی لیکن وہاں موجود 17 فیصد روسی النسل آبادی سمیت روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے دیگر پریشر گروپس اور مغرب کی حمایت کرنے والے گروہوں میں تنازعات کا آغاز ہو گیا۔

اسی عرصے میں روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ بھی جاری رہی۔ روس کو یورپ میں قابو کرنے کے لیے امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوانیا، پولینڈ اور رومانیہ میں فوج رکھ لی اور ہتھیار نصب کر دیے۔ ان میں سے  تین ممالک کی سرحدیں یوکرین سے جڑی ہوئی ہیں۔

2014 آنے تک یوکرین کی سرحد کے ساتھ صرف بیلاروس ایک ایسا ملک تھا، جس کے تعلقات روس کے ساتھ مثالی تھے۔ 2014 روس اور یوکرین تنازع کا عروج تھا۔

2014 میں یوکرین کے صدر وکٹر ینوکووچ تھے، جن کا جھکاؤ روس کی طرف تھا۔ انہوں نے روس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگئے۔

اس احتجاجی لہر کے نتیجے میں وکٹوریا نوکووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اسی دوران یوکرین کے مشرقی علاقوں سے روس کی سرحد پر مامور سکیورٹی افواج پر حملے ہوئے۔ اسے بنیاد بنا کر روس نے کرائیمیا پر چڑھائی کر دی جو تب سے روس کے کنٹرول میں ہے۔

کرائمیا پر روس کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یوکرین کے علیحدگی پسند گروپوں نے بھی ملک کے مشرقی علاقوں میں پیش قدمی کی اور حالات نے خانہ جنگی کی سی صورت حال اختیار کرلی۔

روس نے الزام عائد کیا کہ مغربی ممالک کی حمایت سے مسلح جتھے روسی النسل علاقوں میں خونریزی کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک نے موقف اختیار کیا کہ روسی حمایت سے شر پسند عناصر یوکرین میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔

دونوں اطراف سے الزامات کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق 14 ہزار افراد خانہ جنگی میں مارے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2015 میں فرانس کے تعاون سے یوکرین کے تمام متعلقہ گروہوں میں معاہدہ تو ہوگیا لیکن جھڑپیں جاری رہیں۔

ایسی ہی جھڑپوں میں 2021 کے اواخر میں شدت آ گئی۔

حالات پر نظر رکھے امریکہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ روس ایک مرتبہ پھر یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے جنگ کے نقطہ آغاز کی تاریخیں بھی دی جانے لگیں۔

امریکہ، روس اور مغربی ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطے جاری رہے لیکن 22 فروری کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین سے علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا۔

روسی صدر نے اپنے خطاب میں یوکرین کی موجودہ حکومت کو مغرب کی کٹھ پتلی قرار دیا اور اپنی وزارت دفاع سے ڈونیسک اور لوہانسک کی آزاد ریاستوں میں امن قائم رکھنے کے لیے فوجیں بھجوانے کا حکم دیا۔

روس کے اس اقدام پر سب سے شدید رد عمل روایتی حریف امریکہ نے دیا ہے، جس کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ ’اس عمل کا فوری اور مضبوط جواب دینا چاہیے۔‘  

دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین سے الگ ہونے والی دو ’ریاستوں‘ میں اپنی فوج بھیجنے کی وجہ سے روس پر پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ