خیبر پختونخوا: نئے پینشن نظام سے سرکاری ملازمین کو کیا فائدہ ہوگا؟

بعض حلقوں کی جانب سے پینشن ایکٹ میں ترمیم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ سرکاری ملازمین بھی نئے نظام کے بارے میں تفصیلی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔

پاکستانی الیکشن کمیشن کے افسران 20 اگست 2005 کو اسلام آباد میں کمیشن کے دفتر میں  بلدیاتی انتخابات کے نتائج  مرتب کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت پاکستان تحریک اںصاف (پی ٹی آئی) نے سرکاری ملازمین کے لیے روایتی پینشن کا طریقہ کار ختم کرنے اور ایک نیا پینشن نظام لانے کے لیے ’خیبر پختونخوا سول سرونٹ ایکٹ‘ کی شق 19 میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔

اس ترميم کے مطابق کسی بھی ملازم کی بیوہ، غیر شادی شدہ بیٹی یا بیٹے (اگر ان کی عمر 21 سال سے کم ہو)، معذور بیٹے (عمر بھر کے لیے)، بیوہ بیٹی یا کوئی لے پالک بچہ اور پینشنر کے والدین پینشن لینے کے اہل ہوں گے۔

اسی ترمیم کے بعد پینشرز کی وفات کے بعد ان کی بیوہ، والدین یا کسی بھی زیر کفالت فرد کی پینشن 75 سے بڑھا کر 100 فیصد کی گئی ہے۔

اس سے پہلے صوبائی کابینہ نے پینشن رولز میں کچھ ترامیم کی منظوری گذشتہ سال بھی دی تھی، جس میں ریٹائرڈ ملازمین کی وفات کے بعد ان کے خاندان کے کچھ افراد کو پینشن دی جاتی تھی۔

بعض حلقوں کی جانب سے پینشن ایکٹ میں ترمیم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ سرکاری ملازمین بھی نئے نظام کے بارے میں تفصیلی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔

پینشن کا موجود نظام کیسا ہے؟

ترامیم کے متعلق جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دہائیوں سے چلا آنے والا سرکاری ملازمین کا پینشن نظام کیسا ہے اور حکومت اب اس میں کیا تبدیلی لا رہی ہے؟

سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر حکومت کی جانب سے یک مشت رقم دی جاتی ہے اور اس کے بعد ماہانہ ریٹائرڈ ملازمین کو بھی پینشن کی مد میں رقم دی جاتی ہے۔ اس پینشن کو ’ ڈیفانڈ بینیفٹ پینشن‘ کہا جاتا ہے۔

یہ پینشن ریٹائرڈ ملازمین کو ان کی بنیادی تنخواہ کے تقریباً برابر ہر ماہ دی جاتی ہے۔ پینشن کی یہ رقم ہر سال بجٹ میں مختص کی جاتی ہے یعنی ملازمین کو پینشن حکومتی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پینشن کے نئے نظام کو سمجھنے اور یہ جاننے کے لیے کہ اس نظام سے ملازمین کے لیے کوئی فائدہ ہے یا نہیں، صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا سے خصوصی گفتگو کی، جنہوں نے بتایا کہ روایتی پینشن نظام کی وجہ سے حکومتی خزانے پر ہر سال بوجھ بڑھے جا رہا ہے۔

تیمور جھگڑا کے مطابق: ’پینشن کی رقم صوبے کے بجٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ مختص بجٹ 2005 میں تقریباً ایک ارب روپے سے بڑھ کر اب 83 ارب تک پہنچ گیا ہے، جو تقریباً نو ہزار 500 فیصد اضافہ ہے۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ابھی بجٹ کا تقریباً 15 فیصد ہے اور ہم نے جو اندازہ لگایا ہے، 2030 تک پینشن کی مد میں بجٹ کا 50 فیصد حصہ مختص کرنا پڑے گا، جو ٹیکس دینے والے شہریوں پر بوجھ ہوگا کیونکہ وہ بغیر کسی وجہ کے پینشن کی مد میں جانے والی رقم میں ادائیگی کریں گے۔‘

تیمور جھگڑا نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے محسوس کیا کہ موجودہ پینشن نظام میں ملازمین کو دی جانے والی پینشن کو خطرہ ہے اور اگر کوئی بھی حکومت یا شخص کہتا ہے کہ 40 سال بعد انہیں موجودہ پینشن نظام میں اسی طرح پینشن دی جائے گی، تو وہ جھوٹ بول رہا ہوگا کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے۔‘

 نئے نظام میں پینشن کیسے ملے گی؟

تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا پہلا صوبہ ہے، جہاں پر پینشن اصلاحات کی جا رہی ہیں اور یہ تمام اصلاحات ملازمین کے بہتر مفاد میں کی جا رہی ہیں، تاکہ ان کی پینشن مستقبل میں محفوظ ہو سکے۔

جھگڑا نے بتایا کہ نیا پینشن نظام ’کنٹری بیوٹر پینشن نظام‘ ہے، یعنی اس نظام میں اگر ایک روپیہ حکومت پینشن فنڈ میں جمع کرے گی تو اسی طرح ملازمین سے بھی پینشن کی مد میں تنخواہ سے کٹوتی کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا: ’اس فنڈ کے لیے ایک الگ اکاؤنٹ قائم کیا جائے گا اور اس فنڈ کو مختلف جگہوں پر انویسٹ کیا جائے گا اور اس سے منافع حکومت کو ملے گا، جس سے پینشن کی رقم ادا کی جائے گی۔‘

اس کا ایک فائدہ جھگڑا کے مطابق یہ ہوگا کہ ملازمین کی پینشن رسک پر نہیں ہوگی کیونکہ جتنی بھی رقم اس اکاؤنٹ میں ہوگی، اس کا بوجھ حکومتی خزانے پر نہیں ہوگا بلکہ اس پر سرمایہ کاری ہوگی اور جتنی یہ زیادہ ہوگی، اتنا ہی پینشن نظام مستقل ہوگا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس نئے نظام کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پرانے نظام میں بنیادی تنخواہ پر پینشن دی جاتی ہے لیکن نئے نظام میں مجموعی تنخواہ پر پینشن دی جا سکے گی۔

تیمور جھگڑا نے بتایا: ’شارٹ ٹرم میں یہ حکومت پر بوجھ ضرور ہوگا کہ وہ بنیادی تنخواہ جو کم ہوتی ہے، کے بجائے مجموعی تنخواہ پر پینشن فنڈ میں رقم جمع کرے گی لیکن لانگ ٹرم میں اس کا فائدہ حکومت کو ضرور ہے اور یہ پینشن کی رقم حکومتی خزانے پر بوجھ نہیں بنےگی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ نئے نظام میں موجودہ پینشن نظام کے مقابلے میں ملازمین کو پینشن زیادہ مل سکے کیونکہ سرمایہ کاری جتنی زیادہ ہوگی، اس کے فوائد بھی ملازمین کو ملیں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ نئے نظام میں یہ بھی ہوگا کہ کوئی بھی ملازم کسی بھی وقت اپنی پینشن یک مشت یا ماہانہ بنیادوں پر کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے جبکہ موجودہ نظام میں ارلی ایج ریٹائرمنٹ (جو 25 سال ملازمت ہے) تک آپ پینشن نہیں لے سکتے۔

تیمور جھگڑا کا کہنا تھا: ’ہم نے پرانے نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے ارلی ایج ریٹائرمںٹ کی عمر کی حد بھی بڑھائی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ملازم پر حکومت 25 سال پیسہ لگاتی ہے اور جب وہ میچور ایج تک پہنچ جاتا ہے، تو وہ ریٹائرمنٹ لے کر کسی نجی ادارے میں ملازمت اختیار کرتا ہے۔ وہ حکومت سے پینشن کی رقم بھی لیتا ہے اور نجی ادارے سے تنخواہ بھی لیتا ہے۔ارلی ایج ریٹائرمنٹ ریفارمز کی وجہ سے حکومت کو 12 ارب روپے تک کا فائدہ ہوگا۔‘

کیا عوام بھی اس فنڈ میں سرمایہ کاری کرسکیں گے؟

اس سوال کے جواب میں جھگڑا کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے بھی سوچ رہے ہیں کہ اسے عوام کے لیے بھی اوپن کریں کہ وہ بھی اس فنڈ میں حصہ لیں اور منافعے سے آنے والی رقم سے انہیں فائدہ ہوسکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیمور جھگڑا سے جب پوچھا گیا کہ دیگر ممالک میں، جہاں یہ نظام رائج ہے، وہاں تنخواہیں بھی اسی حساب سے زیادہ دی جاتی ہیں، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مستقبل میں ہم سرکاری اداروں میں ملازمتیں ضرورت کی بنیاد پر کریں گے تو ظاہری سی بات ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا جائے گا۔‘

نیا پینشن نظام جولائی 2021کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین پر لاگو ہوگا تاہم جھگڑا کے مطابق اس سے پہلے بھرتی ہونے والے ملازمین کو بھی ہم انتخاب کی سہولت دیں گے کہ وہ اگر اس نئے پینشن نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو وہ بن سکتے ہیں۔

کیا یہ سرمایہ کاری اسلامی شریعت کے مطابق ہوگی؟

پاکستان میں رہتے ہوئے کسی بھی جگہ پر سرمایہ کاری سے پہلے لوگوں کی جانب سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ سرمایہ کاری بلا سود ہوگی؟ یہی سوال جب تیمور جھگڑا سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’نئے پینشن نظام میں پہلے تو ہم کوشش کریں گے کہ تمام تر سرمایہ کاری شریعت اصولوں کے مطابق ہوگی اور ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ ملازمین کو انتخاب کی سہولت دیں گے کہ وہ شریعت کے اصولوں کے مطابق کاروبار میں سرمایہ کاری کریں یا مارک اپ میں، یہ ملازمین کی مرضی ہوگی۔‘

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈولپمنٹ اکنامکس کے پروفیسر اور پاکستان میں بجٹ منیجمنٹ کے حوالے سے مختلف تحقیقی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خیبر پختونخوا جس پینشن ماڈل پر جا رہا ہے، پوری دنیا اب اسی ماڈل کو اختیار کرنے کا سوچ رہی ہے۔‘

ڈاکٹر ناصر کے مطابق: ’حکومت پر سب سے بڑا بوجھ تنخواہوں کا نہیں بلکہ پینشن کا ہے اور حکومت کو اس مد میں ریفامرز کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ پینشن بھی موجود رہے اور حکومتی خزانے پر بوجھ بھی نہ پڑے اور یہ نیا پینشن ماڈل سب سے بہترین ماڈل ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس کا زیادہ فائدہ ملازمین کو بھی ہوگا اور وہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سرکاری ملازمتیں پینشن ہی کے لیے کی جاتی ہیں اور ملازمیں سوچتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ لے کر ان کو کچھ نہ کچھ رقم مل جائے گی۔

تو اب اس نئے نظام میں ڈاکٹر ناصر کے مطابق ’ملازمین کو انتخاب کی سہولت ہوگی کہ وہ کسی بھی وقت اپنی پینشن نکال کر کسی دوسری ملازمت میں جاسکیں گے اور اپنی پینشن وہاں منتقل کرسکیں گے۔‘

ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ اس ماڈل پر ہمارے ادارے نے کام بھی کیا ہے اور حکومت پاکستان بھی اسی ماڈل کو اختیار کرنے کا سوچ رہی ہے تاکہ لوگوں کی پینشن مستقبل میں محفوظ ہو سکے اور حکومتی خزانے پر بوجھ بھی نہ ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان