ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ یا سرکاری ملازمین کی بلیک میلنگ؟

نااہل اور بدعنوان افسروں کی صفائی ضروری ہے مگر اس کے لیے پہلے سے موجود قوانین کا موثر استعمال کرکے ان کے خلاف آسانی سے تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نےجو کابینہ کی سول سروس اصلاحات کی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں  20 جنوری 2021 کو ادارہ جاتی اصلاحات کا اعلان کیا تھا (پی آئی ڈی)

 

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل سول سروسز میں اصلاحات پر زور دیتی رہی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کافی مہم جو دستے تشکیل دیے گئے۔ اب تک ان دستوں کی سفارشات مکمل طور پر منظر عام پر نہیں آئیں ہیں مگر جو اطلاعات لیک ہوئی ہیں ان میں ایک مخصوص سروس گروپ کی بالادستی کے سوا اصلاحات کا کوئی واضح مقصد دکھائی نہیں دیتا۔

البتہ ان اصطلاحات کا ایک مقصد حکومت کچھ حد تک حاصل کرنے میں کامیاب نظر آ رہی ہے۔ وہ مقصد ناپسندیدہ سینیئر افسروں کو ان کے عہدوں اور سروس سے مبینہ نااہلی اور اور بدعنوانی کے الزامات پر نکالنے کی کوشش ہے۔

پی ٹی آئی حکومت پہلے دن سے اور کچھ حد تک صحیح  کہتی آئی ہے کہ سول سروس میں سیاسی جماعتوں کا اثرورسوخ بڑھ گیا ہے۔ سول سروس ملک کے مفادات کا دفاع کرنے کی بجائے اپنے سیاسی آقاؤں کے مفادات کو آگے بڑھاتے ہوئے نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم علی الاعلان ایسا کہتے رہے ہیں کہ پچھلی دو حکومتوں نے اپنے وفادار سرکاری ملازم بنائے اور وہ اب بھی سابق حکمرانوں کے وفادار ہیں اور ان کی حکومت کو نہ کام کرنے اور نہ چلنے دے رہے ہیں۔

کیونکہ سرکاری ملازمین کے مروجہ موجودہ مشکل قوانین کی موجودگی میں ان ناپسندیدہ سرکاری ملازمین کو بیک جنبش قلم برطرف نہیں کیا جاسکتا تو ان سے فوری چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے حکومتی بزرجمہروں نے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ کا نیا فارمولا دریافت کیا ہے۔

اس تیر بہدف سکیم کے ذریعے سکیل بائیس، اکیس اور بیس کے بظاہر ناپسندیدہ سینیئر سرکاری ملازمین کو ایک انتہائی مختصر اور تقریبا یکطرفہ محکمانہ کارروائی کے بعد ان کی طویل مدت ملازمت سے فارغ کر دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں کچھ اچھی شہرت رکھنے والے وفاقی سیکریٹریز کے درجے کے افسروں کے نام جبری ریٹائرمنٹ کے لیے میڈیا میں لیک کیے گئے ہیں۔

چونکہ نہ ہی وزیر اعظم کے دفتر یا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اس فہرست کی صداقت کے بارے میں کوئی تصحیح جاری کی، اس لیے اس کے معتبر ہونے پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ یہ مبینہ نااہل اور قابل برطرفی سیکریٹریز پچھلے تین سالوں سے اس حکومت میں کام کر رہے تھے تو وزیر اعظم نے ان کی غیرتسلی بخش کارکردگی کی سمجھ بوجھ ہوتے ہوئے انہیں ان وزارتوں سے فارغ کر کے او ایس ڈی کیوں نہیں بنایا؟ یہ اپنی مبینہ نااہلی اور نالائقی کے باوجود ان اہم عہدوں پر کیسے کام کر رہے ہیں۔

اس طریقہ واردات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان افسروں نے مختلف محکمہ جاتی معاملات میں موجودہ حکومت کے غیر قانونی اور خلاف ضابطہ احکامات ماننے سے ہچکچاہٹ یا معذوری کا اظہار کیا جس کی وجہ سے انہیں زبردستی ریٹائرمنٹ کی سزا دی جا رہی ہے۔

یہ ممکن ہے کہ حکومت سمجھتی ہو کہ یہ طریقہ کار باقی سرکاری ملازمین میں حکومتی دہشت بٹھائے گا اور وہ اگر اپنی ملازمت بچانا چاہتے ہوں گے تو وہ ہر جائز اور ناجائز حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

حکومتی بدنیتی اس طرح بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ لاہور کے جن سی سی پی او کی وزیر اعظم نے قومی میڈیا سمیت ہر ایک کے سامنے تعریفوں کے پل باندھے اور انہیں اس حد تک انتظامی آزادی  دی گئی کہ وہ آئی جی پولیس کو بھی رپورٹ کرنے سے آزاد تھے انہیں  اپنے مبینہ ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے تین ماہ بعد اس عہدے سے ہٹا کر ملازمت سے جبری برطرفی کے لیے نامزد کر دیا ہے۔

اس پولیس افسر نے ایسی کیا خطا کی کہ وہ تین ماہ پہلے وزیر اعظم کی نظر میں پولیس کے بہترین افسر تھے اور اس مختصر عرصے میں اس درجے کے معتوب ٹھہرے کہ انہیں ملازمت سے برطرف کرنے کے انتظامات شروع کر دیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس مضحکہ خیز جبری ریٹائرمنٹ کی فہرست میں  اکاؤنٹس گروپ کے ایک قابل سینیئر افسر کا نام بھی شامل ہے جو کہ پہلے سے ہی ریٹائر ہو چکے ہیں۔ شاید یہ فہرست بنانے والوں نے وزیراعظم کی پسند ناپسند کا خیال رکھتے ہوئے افسروں کے بارے میں ان بنیادی معلومات کا جاننا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

اسی طرح ڈی ایم جی کے ایک سینیئر افسر جنہوں نے سٹاف کالج اور نیپا کورسز میں اول پوزیشن حاصل کی اور اپنے سینیئر افسروں سے اعلی ترین رپورٹیں حاصل کیں انہیں بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا کیونکہ وہ پچھلی حکومتوں میں اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔

غرض اس سکیم کی بنیاد بظاہر بدنیتی پر مبنی ہے اور اس کا مقصد ناکارہ، نااہل اور بدعنوان سرکاری ملازمین کو فارغ کرنا نہیں بلکہ ان اہل اور ایمان دار افسروں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے جو حکومت کے غیرقانونی احکامات ماننے سے اجتناب کر رہے ہیں۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت کے منفی ارادوں کو بھانپتے ہوئے کچھ سینیئر افسران رضاکارانہ طور پر پیش وقتی ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں تاکہ وہ اپنے پنشن سمیت باقی منسلک جائز مالی فوائد بچا سکیں۔

بہت سارے قانونی ماہرین کی نظر میں ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ قوانین آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے منافی ہیں اور جبری ریٹائرمنٹ کے عمل کے شروع ہونے کے بعد فورا انہیں اعلی عدلیہ میں چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ قانون بظاہر امتیازی سلوک پر بھی مبنی لگتا ہے کیونکہ یہ صرف ان مبینہ نااہل افسروں کے خلاف ہے جنہوں نے 20 سال کی سروس مکمل کر لی ہے۔ اس سے کم سروس والے نااہل اور بدعنوان افسروں کو اس قانون سے استثنیٰ حاصل ہوگا اور وہ بدستور 20 سال مکمل ہونے تک اپنا کام جاری رکھیں گے۔

نااہل اور بدعنوان افسروں کی صفائی ضروری ہے مگر اس کے لیے پہلے سے موجود قوانین کا موثر استعمال کرکے ان کے خلاف آسانی سے تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ایک جانبدارانہ اور من پسند پاکیزگی سے سول سروس میں نہ صرف بے چینی پھیلے گی بلکہ پہلے سے موجود کمزور نظام حکومت مزید ابتری کا شکار ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ