سول سروسز اصلاحات کے بھیس میں ڈی ایم جی کا قبضہ

سول سروس میں اصلاحات کا مقصد ڈی ایم جی کے غلبے کو مزید مضبوط کرنے کی بجائے ان مخصوص شعبوں میں ان شعبوں کے ماہرین کی شمولیت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ مناسب قابلیت والے لوگ ان شعبوں کی نگرانی کر سکیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھی پچھلی حکومتوں کی طرح سول سروس کے ڈھانچے میں تبدیلیاں لانے کے لیے آتے ہی اصلاحات کا وعدہ کیا۔

ان اصلاحات کا مقصد سول سروس میں جمود کا خاتمہ، خدمات کے معیار میں اضافہ اور میرٹ کی بالادستی قائم کرنا تھا۔ اس عزم کا اظہار دو سال قبل کیا گیا تھا اور ڈاکٹر عشرت حسین کی زیر نگرانی ایک ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی لیکن 700 سے زائد دن گزرنے کے بعد بھی اس سلسلے میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ ناپسندیدہ افسروں کو نکالنے کے لیے انہیں جبری ریٹائرمنٹ پر بھیجنے کے ایک پروگرام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

ٹاسک فورس کے سربراہ 80 سالہ ڈاکٹر عشرت حسین ایک پرانے سی ایس پی افسر ہیں۔ انہوں نے اپنی سروس کے کچھ سالوں بعد ہی اسے چھوڑ کر عالمی بینک میں شمولیت اختیار کی اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ اپنی فعال پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے بیرون ملک عالمی مالیاتی ادارے کی خدمت میں گزارا مگر ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے دل میں پاکستانی سول سروسز کو بہتر بنانے کا جذبہ جاگ اٹھا۔ وہ تقریبا پچھلی تینوں حکومتوں کو اس سلسلے میں مشورے دیتے رہے ہیں جو اب تک ناقابل عمل رہے ہیں کیونکہ ان کی ہمدردیاں سی ایس پی/ ڈی ایم جی/ پاس (PAS)گروپ کے ساتھ رہی ہیں تو ان کی تمام تر تجاویز جو اب تک منظر عام پر آئی ہیں ان سے تاثر ملتا ہے کہ ساری سروسز کی اصلاحات ان کا مطمع نظر نہیں اور وہ صرف اور صرف اسی گروپ کی بہتری اور مکمل غلبہ چاہتے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح وزیراعظم کے دفتر پر ڈی ایم جی کا کامل قبضہ ہے تو ان اصلاحات کے لیے جو ٹاسک فورس بنائی گئی ہے اس میں 90 فیصد سے زیادہ ارکان کا تعلق ڈی ایم جی سے ہے۔ اب تک کی مشاورت سے یہ پتہ لگتا ہے کہ اصلاحات کا مرکز ڈی ایم جی کے غلبے کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوششیں کرنا ہے۔

کسی طرح سے جواز گھڑ کر اس گروپ کی اعلیٰ گریڈ کی نشستوں کو مزید بڑھانے کی تگ و دو کی جا رہی ہیں تاکہ اسلام آباد میں تمام وزارتوں کے سیکرٹری ڈی ایم جی سے ہی تعلق رکھتے ہوں اور باقی ماندہ اعلیٰ خود مختار کار اداروں کے سربراہ بھی اسی گروپ سے منتخب ہوں۔

اس وقت ڈی ایم جی کے 900 افسروں کی تعداد کے لیے 1752 پوسٹ مختص ہیں اور وفاقی سطح پر گریڈ 22 کی 65 آسامیوں میں سے 50 ان کے پاس ہیں۔ اس ٹاسک فورس کی مشاورت میں دوسرے پیشہ ورانہ گروپوں کے چند ہی نمائندے شامل ہیں اور کم ہی ان گروپوں کو بہتر بنانے پر غوروخوص ہوتا ہے۔ تمام تر توجہ ان دوسرے گروپوں کو مزید کمزور کرنے پر مرکوز ہے۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ڈی ایم جی کے غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے اور موثر بحث اور تجاویز کے لیے غیر ڈی ایم جی ارکان کو معلومات یا ضروری دستاویزات مہیا نہیں کی جاتیں۔ اس سلسلے میں اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے واضح ہدایات جاری کی ہیں کہ سیکریٹری کی اجازت کے بغیر کسی قسم کی دستاویز ٹاسک فورس کے غیر ڈی ایم جی ممبران کو نہ مہیا کی جائیں۔ اس وجہ سے ٹاسک فورس کے یہ ارکان کسی قسم کی معنی خیز رائے اور تجاویز نہیں دے پاتے۔

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ٹاسک فورس کی تجاویز کو جب کابینہ کے آگے پیش کیا جاتا ہے تو اس کی تفصیل ٹاسک فورس کے ارکان کو نہیں بتائی جاتی جس سے وہ یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ واقعی وہی تجاویز کابینہ کو پیش کی گئی ہیں یا ان میں ترامیم کر دی گئی ہیں۔ کئی ارکان کے مطابق ان تجاویز میں ڈی ایم جی سے بھرا اسٹبلشمنٹ ڈویژن من مانی تبدیلیاں کر دیتا ہے اور اس سارے عمل میں کوئی شفافیت نہیں ہے۔

ٹاسک فورس کے کچھ اجلاسوں میں پولیس گروپ نے اپنے لیے مالی آزادی کا مطالبہ کیا جسے ڈی ایم جی گروپ کے ارکان نے شدید مخالفت کرتے ہوئے رد کر دیا کیونکہ اس سے ڈی ایم جی کے کنٹرول میں کمی واقع ہو سکتی تھی۔ ٹاسک فورس کو جان بوجھ کر غلط اطلاعات بھی فراہم کی جاتی رہتی ہیں مثلا اسے بتایا گیا کہ پولیس ایکٹ کو لاگو کر دیا گیا ہے جبکہ آج تک ڈی ایم جی نے اس قانون کو لاگو نہیں ہونے دیا کیونکہ اس سے پولیس خود مختار ہو سکتی تھی اور عوام کو جواب دے بھی ہو سکتی تھی۔

یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ڈی ایم جی کسی قسم کی بامعنی اصلاحات کو لانے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اس سارے عمل کا مقصد اس کی طاقت اور اثر و رسوخ میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ اسی طرح آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس گروپ کو کمزور کرنے کے لیے اسے تقسیم کرنے کی کوشش بھی کی گئی تاکہ اس گروپ کا ڈی ایم جی پر کسی قسم کا مالیاتی کنٹرول نہ رہے۔

مجوزہ نیشنل ایگزیکٹیو سروس کے بارے میں کبھی بھی ٹاسک فورس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور بالا بالا ڈی ایم جی والے اور عشرت حسین خود ہی تجاویز کو حتمی شکل دے کر اسٹبلشمنٹ ڈویژن کو بھجوا چکے ہیں۔ اور کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ڈی ایم جی افسران اس سروس کے لیے بغیر امتحان دیئے کوالیفائی کر لیں مگر دوسرے گروپس کے افسران امتحان کے بعد ہی اس میں شامل ہو سکیں۔

ٹاسک فورس کے سربراہ کا اصلاحات سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ اس کے اجلاس بھی تواتر سے نہیں ہو پاتے اور نہ ہی اس میں ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق معاملات پر بحث ہو پاتی ہے۔ اس غیریقینی صورت حال سے مایوس ہوکر کافی ارکان کچھ اجلاسوں میں شرکت ہی نہیں کر پاتے۔

اگر کسی معجزے سے یہ ٹاسک فورس اپنی تجاویز پیش کرنے میں کامیاب ہو بھی گئی تو اس کی ساخت اور رجحانات کی بنیاد پر آسانی سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ناکام کوشش ہوگی اور سول سروس میں بہتری کی بجائے صرف ایک گروپ کے غلبے کو مزید مضبوط کرے گی۔ اس لیے بہت سارے ارکان کے نزدیک یہ مشق ایک تماشے سے کم نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سول سروسز میں بامعنی اور غیر متنازع اصلاحات لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی سربراہی کوئی غیرمتنازع اور غیرجانبدار ماہر کرے اور اس میں سارے گروپس کی رائے شامل ہو۔ کوشش تمام گروپس میں حالات بہتر بنانے اور قابلیت میں بہتری لانے پر ہونی چاہیے نہ کہ کیسے ان گروپس کو کمزور کر کے صرف ایک گروپ کو استحکام بخشا جائے یا اس کی اجارہ داری قائم کی جائے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گروپ کے افسران سارے حکومتی شعبوں کے ماہر ہوں۔ وہ مالیات پر بھی عبور رکھتے ہوں اور موسمی تغیر بھی ان کی مہارت میں شامل ہو اور شہری منصوبہ بندی بھی صرف انہیں ہی سمجھ آتی ہو۔ وہ محکمہ پراسیکیوشن کے بھی سربراہ ہوں اور جیل خانہ جات بھی انہی کے ماتحت ہوں۔ اور عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی آسامیاں بھی انہی کے لیے مخصوص ہوں۔ اور تو اور وہ محتسب بھی بن سکتے ہیں اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی پوسٹ بھی ان کی پہنچ سے دور نہ ہو۔

سول سروس میں اصلاحات کا مقصد ڈی ایم جی کے غلبے کو مزید مضبوط کرنے کی بجائے ان مخصوص شعبوں میں ان شعبوں کے ماہرین کی شمولیت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ مناسب قابلیت والے لوگ ان شعبوں کی نگرانی کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سول سروس میں تنخواہوں کے ڈھانچے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اہل اور قابل لوگوں کے لیے سول سروس کو پرکشش بنایا جا سکے۔

اعلیٰ سول سروس کے لیے امتحان کا طریقہ کار بھی کافی فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے اور مختلف گروپس مختص کرتے ہوئے امیدواروں کے رجحان اور شخصیت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

جامع اصلاحات کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے نظر انداز کیڈر جن میں ڈاکٹرز، سائنس دان اور ماہر تعلیم وغیرہ شامل ہیں ان کی سروس کے حالات میں بھی بہتری لائی جائے۔ یہ انتہائی تعلیم یافتہ گروپ حکومتی توجہ کا طلب گار ہے اور اس میں ترقی کے برابر کے مواقع موجود ہونے چاہییں۔ اس کے لیے ڈی ایم جی کی کچھ پوسٹیں ان محکموں کو آسانی سے دی جا سکتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ