بھارت کا جنوبی شہر حیدر آباد اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے پوری دنیا میں ایک منفرد شناخت رکھتا ہے وہیں یہ شہر ’موتیوں کے شہر‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔
مختلف تہذیبوں کا سنگم کہلائے جانے والا یہ شہر کبھی اپنے ہیرے جواہرات کی وجہ سے مشہور رہا ہے، تاہم اسے ’موتیوں کے شہر‘ کا خطاب حاصل ہے۔
اگرچہ شہر کے اطراف و اکناف میں سمندر نہیں تھے اور نہ ہی یہاں موتی ہوا کرتے تھے لیکن موتیوں کی پروسیسنگ اور تجارت کے اعتبار اسے موتیوں کا شہر کہا جانے لگا۔
حیدرآباد کے نامور مورخ علامہ اعجاز فرخ نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’حیدرآباد میں موتیوں کی تجارت کی تاریخ 400 سال قدیم ہے۔ موتیوں کی تجارت یمن کے دارالحکومت سے عدن سے ہوا کرتی تھی اور بعد میں نظام نے موتیوں کی بکثرت تجارت شروع کی۔‘
اعجاز فرخ کے بقول ’حیدرآباد میں کاریگر موتیوں کی پروسیسنگ، گریڈنگ اور ڈرلنگ میں ماہر تھے۔ وہ موتیوں میں سراخ ڈالنے کا ہنر جانتے تھے۔ جس کے سبب یہاں موتیوں کی یہ صنعت ترقی پاتی گئی۔‘
’کوہِ نور اور نور العین سمیت دنیا کے مشہور ہیرے یہی سے نکلے ہیں لیکن اسے موتیوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ جگہ جگہ مختلف محلوں میں موتیوں کو چھاننے، رنگ کے حساب سے ان کو الگ کرنے اور ان کی قیمیت تعین کرنے کی صنعت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد موتیوں کا مرکز بن گیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہیرے جواہرات سمیت موتی پہننے کا رواج عام تھا۔ لوگ موتی پہنے میں شان محسوس کرتے تھے۔ جنوبی بھارت کے مختلف شہروں میں سونے میں موتی جڑے جاتے تھے لیکن حیدرآباد میں ایک عجیب ذوق پایا جاتا تھا کہ یہاں موتی میں سونا جڑا جاتا تھا۔ بھارت میں حیدرآباد کو موتیوں کا تجارتی مرکز مانا جاتا ہے۔ یہاں کے موتیوں کے بہترین زیورات خریدنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔‘
محمد زاید علی گزشتہ 12 برسوں سے موتیوں کے کاروبار سے جڑے ہیں۔
انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حیدرآباد کے تاریخی چار مینار موتیوں کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا موتیوں کا بازار ہے۔ یہاں دو سے تین ہزار کے قریب موتیوں کی دکانیں ہیں دنیا بھر سے سیاح چار مینار دیکھنے آتے ہیں اور وہ تحفے کے طور پر موتی ضرور خرید کر لے جاتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد زاید علی کے مطابق موتی کو دیگر زیوراتی پتھروں کی طرح تراشنا نہیں پڑتا بلکہ مشین کے ذریعے سیپ یعنی شیل سے موتی نکالا جاتا ہے اور بہت ہی باریکی سے اس کی صاف صفائی کی جاتی ہے۔
’حیدرآباد میں موتیوں کے سیپ دوسرے شہروں اور ممالک سے آتے ہیں اور یہاں مشینوں کی مدد سے ان سیپوں سے موتی کو نکالا جاتا ہے اور پھر صاف کر کے الگ الگ صورتوں میں پیرویا جاتا ہے۔‘
موتی نہ صرف زیورات کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ موتی میں شفایابی اور ٹھنڈے پن کی خصوصیات ہیں۔
چار مینار کے قریب پھتر گھٹی میں وکاس اگروال گزشتہ 23 سال سے موتیوں کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے ’موتی کی خاصیت اس کا ٹھنڈا پن ہے یعنی غصیلے آدمی کے مزاج میں یہ نرمی لاتا ہے۔‘
ان کے بقول ’نو رتن (نو طرح کے جواہرات) میں ایک موتی بھی ہے۔ نیلم اور دیگر رتنوں کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں لیکن موتی پہنے سے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔ اسے عام طور پر فیشن کے طور پر بھی لوگ پہنتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اصلی موتی صاف و شفاف، قدرتی طور پر چمک دار اور خوبصورتی میں بے مثل ہوتے ہیں۔اگر جلایں یا تیزاب ڈالیں تو موتی کے رنگ اور بناوٹ پر کوئی فرق نہیں پڑے گی وہیں پلاسکٹ یا دیگر انسان ساختہ موتیوں کی کوٹنگ خراب ہو جاتی ہے۔
ان کے مطابق ’موتی کی شکل اکثر گول اور سڈول ہوتی ہے اور اس کی رنگ کے مطابق درجہ بندی کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر موتی سفید، گلابی اور سنہرے رنگ ہوتے ہیں۔ روایتی زیورات سفید موتیوں سے بناتے جاتے ہیں لیکن حیدرآباد میں سنہرے اور گلابی موتی بھی خوبصورت اور نادر ہوتے ہیں۔‘