خواتین بوائے فرینڈز کی تلاش میں جنوبی کوریا کا رخ کیوں کر رہی ہیں؟

کے-ڈراموں کی دنیا بھر میں مقبولیت جنوبی کوریا کی دیگر ثقافتی مصنوعات کی مقبولیت کا باعث بھی بنی ہے جیسے کے-پاپ، کاسمیٹکس اور پکوان۔

نیو یارک میں کورین بینڈ بی ٹی ایس 21 فروری کو سیریئس ایکس ایم سٹوڈیو کے دورہ پر (اے ایف پی)

میں نے اپنی پوری زندگی جنون کی حد تک لگاؤ سے جنوبی کوریا کے ٹیلی ویژن ڈرامے، جنہیں کے-ڈرامے کہا جاتا ہے، دیکھے ہیں۔

کے- ڈراموں کی اس اصطلاح سے مراد جنوبی کوریا میں تیار کیے جانے والے ٹیلی ویژن ڈراموں کی مختلف قسمیں ہیں جن میں پراسرار، جرائم پر مبنی اور رومانوی مزاحیہ شوز شامل ہیں۔

سٹائل سے قطع نظر، زیادہ تر کے-ڈرامے ناظرین میں ایسا ردعمل پیدا کرتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر وہ ہنستے ہیں، روتے ہیں اور غصہ بھی کرتے ہیں۔

ان سیریز میں عام طور پر دلکش اور اچھی گرومنگ والے اداکار شامل ہوتے ہیں جو اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔

جب میں امریکہ میں ایلیمنٹری سکول میں پڑھتی تھی تو میں باقاعدگی سے اپنے والدین کے ساتھ کے-ڈراموں کی وی ایچ ایس ٹیپس لینے کے لیے اپنے گھر سے ایک گھنٹہ دور کورین گروسری سٹور جایا کرتی تھی۔  بالآخر اب سٹریمنگ سروسز نے کرائے کی وی ایچ ایس ٹیپس کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے اور میں Rakuten Viki اور Dramafever جیسے پلیٹ فارمز پر ’دا انوسینٹ مین‘ جیسے اپنے پسندیدہ کے-ڈرامے دیکھ سکتی ہوں۔

میں نے جنوبی کوریا کے ٹیلی ویژن کے لیے اپنے شوق کو کیریئر میں بدلتے ہوئے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے صنفی مطالعے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، جہاں میں نے کے-ڈراموں کی عالمی مقبولیت کے گرد نسلی، صنفی اور جنسی سیاست پر تحقیق کی۔

اپنے مقالے کے لیے میں نے دنیا کے مختلف حصوں سے ان خواتین کا انٹرویو کیا جو کے-ڈراموں سے متاثر ہوکر کوریا کی ثقافت کا مشاہدہ کرنے کے لیے جنوبی کوریا کا سفر کرتی ہیں۔ ان سے ملنے کے لیے میں سیئول کے آس پاس کے-ڈراموں کی فلم بندی کے مقامات اور مشہور سیاحتی مقامات کے قریب گیسٹ ہاؤسز میں ٹھہری۔

وسیع تناظر میں میں اس کے بارے میں جاننا چاہتی تھی کہ ان خواتین کو کس چیز نے جنوبی کوریا کی طرف راغب کیا۔ لیکن میں نے جلد ہی محسوس کیا کہ سیاحوں کی ایک قابل ذکر تعداد سیاحتی مقامات میں کم اور یہاں کے مردوں میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔

جنوبی کوریا سے باہر ناظرین کو راغب کرنے والے پہلے کچھ کے-ڈراموں میں ’جیول ان دا پیلس‘، ’گارڈین: لونلی اینڈ گریٹ گاڈ‘ اور ’مائی لو فرام دا سٹار‘ شامل تھے۔ یہ سب ڈرامے 21 ویں صدی کے آغاز میں نشر ہوئے۔

دنیا بھر کے لوگوں نے انہیں قانونی سٹریمنگ ویب سائٹس پر دیکھا جو سب ٹائٹلز کے ساتھ نشر کیے جاتے تھے۔ ساتھ ہی مداحوں کی جانب سے چلائی جانے والی غیر قانونی سٹریمنگ سائٹس پر بھی انہیں کافی دیکھا گیا جہاں رضاکاروں نے خود سب ٹائٹلز لکھے۔

حالیہ برسوں میں کے-ڈرامے مرکزی دھارے والے پلیٹ فارم پر چھا گئے ہیں۔

آج نیٹ فلکس اور ڈزنی پلس جیسے سٹریمنگ پلیٹ فارم اپنے سبسکرائبرز کے لیے نہ صرف کے-ڈرامے پیش کرتے ہیں بلکہ انہوں نے ’سکوئڈ گیم‘ اور ’دا کنگز افیکشن‘ جیسے اپنے ذاتی کے-ڈرامے بھی تیار کیے ہیں۔

کے-ڈراموں کی دنیا بھر میں مقبولیت جنوبی کوریا کی دیگر ثقافتی مصنوعات کی مقبولیت کا باعث بھی بنی ہے جس میں کے-پاپ، کاسمیٹکس اور یہاں تک کے پکوان بھی شامل ہیں۔ اس رجحان کو Hallyu یا ’کورین ویو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جنوبی کوریا کی مقبول ثقافت میں غیر ملکیوں کی دلچسپی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ سیاح اس ملک کا سفر کر رہے ہیں۔ جنوبی کوریا کے مقامی لوگ ان غیر ملکیوں کو ’ہالیو سیاح‘ کہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سٹریٹ فوڈ اور مقامی ریستورانوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ کے-ڈراموں میں پیش کیے گئے پکوان کھا سکیں۔ وہ کے-ڈراموں کی عکس بندی والے مقامات پر جاتے ہیں یا لائیو کے-پاپ کنسرٹ میں شرکت کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ان میں ایک اہم گروپ ہے ان کا جو محبت کی تلاش میں یہاں آتے ہیں، اور اسی گروپ میں مجھے سب سے زیادہ دلچسپی ہوئی۔ 

اپنے ٹی وی پر نظر آنے والے کرداروں سے متاثر ہو کر وہ سوچنے لگتے ہیں کہ کیا حقیقی زندگی میں جنوبی کوریا کے مرد شکل صورت اور طرز عمل میں کے-ڈراموں کے مرد کرداروں کی طرح ہیں۔

وہ پوری دنیا سے یہاں آتے ہیں، شمالی امریکہ، مغربی یورپ اور روس سے بھی لیکن ان کا پروفائل ایک جیسا ہوتا ہے یعنی 20 سے 25 سال کی عمر کی خواتین۔

2017 اور 2018 کے دوران میں ان گیسٹ ہاؤسز اور ہاسٹلز میں رہی جہاں جنوبی کوریا کے دورے پر آئے ہوئے ہالیو سیاح قیام پذیر تھے۔

کورین مردوں میں دلچسپی رکھنے والے سیاح شام کو باہر نکلتے تھے، دوسرے سیاحوں کے برعکس جو صبح سویرے جاگتے ہیں تاکہ وہ شہر کی سیر کرسکیں۔ یہ سیاح دن میں سوتی ہیں یا کے-ڈرامے دیکھتی تھیں اور پھر تیار ہو کر رات کو کلبز اور بارز میں جاتی تھیں۔ ان کا بنیادی مقصد ایک کورین مرد سے ملنا تھا۔

ان میں سے کچھ سیاحوں کے لیے ان مردوں کو ڈیٹ کرنے کا موقع ایک خواب کو پورا کرنے جیسا تھا۔ ایک جرمن سیاح نے مجھے بتایا کہ جب وہ ایک کورین مرد سے ملتی ہیں تو انہیں ’ایسا لگتا ہے جیسے میں خود کورین ٹیلی ویژن ڈرامے میں رہ رہی ہوں۔‘

ہماری گپ شپ اکثر کھانے پر ہوتی تھی۔ کبھی کبھار میں ان کا انٹرویو چلتے ہوئے یا کلبز یا بارز میں بھی کر لیتی جہاں خواتین کورین لڑکوں سے ملنے کی کوشش کرتی تھیں۔

ان میں سے کچھ خواتین کورین زبان روانی سے بول سکتی تھیں جب کہ دیگر کورین اور انگریزی کو ملا کر بات چیت کرنے کے قابل تھیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین نے کوریا کی مقبول ثقافت پر مبنی ڈراموں کو گھنٹوں دیکھ کر کورین زبان سیکھنے کا دعویٰ کیا۔

یہ سیاح خواتین کورین مردوں کو ’رومانٹک، نرم مزاج، خوبصورت، اور فوجی لباس میں نائٹس‘ کے طور پر بیان کرتی تھیں۔ یہ ان کے اپنے ممالک کے مردوں سے بالکل مختلف تھے، جنہیں وہ جذبات کو کم سمجھنے والے اور مردانگی کے دقیانوسی تصور قائم رکھنے والوں کے طور پر بیان کرتی ہیں۔

ایک سویڈش خاتون نے مجھے بتایا: ’میں کورین مردوں کے پاس بہت محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ ‘

ان کے بقول: ’میرے ملک کے مرد (جنسی طور پر) بہت جارحانہ ہوتے ہیں۔ وہ مجھے چھوتے ہیں اور ہر وقت سیکس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے یہ پسند نہیں۔‘

ایک خاص قسم کے مرد رومانوی کے-ڈراموں میں دکھائے جاتے ہیں۔ انہیں عام طور پر گرومڈ، رومانوی اور نرم مزاج کے حامل دکھایا جاتا ہے۔ نرم مزاج مردانگی کی ایک قسم جسے بعض اوقات ’نرم‘ مردانگی بھی کہا جاتا ہے۔

کورین سٹڈیز کی سکالر جوئنا ایلفونگ ہوانگ بتاتی ہیں: ’مقبول ڈراموں اور رومانوی کامیڈیز میں مردوں کو توجہ دینے والے، حساس اور ضرورت پڑنے پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے والوں کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ وہ اچھی طرح سے گروم اور فیشن کے مطابق ملبوسات اور جدید ترین مین بیگ رکھتے ہیں اور اپنی ظاہری شکل و صورت پر ہہت توجہ دیتے ہیں۔‘

کچھ خواتین سیاحوں نے، درحقیقت، اپنے مثالی ساتھی تلاش بھی کر لیے اور شادی کرکے جنوبی کوریا میں آباد ہو گئیں۔ ان کی تصاویر اور کہانیاں کچھ دوسرے سیاحوں کے درمیان گردش کرتی ہیں جس سے انہیں امید ملتی ہے کہ وہ بھی ایک کورین مرد کو تلاش کر کے اس سے شادی کر سکتی ہیں۔ تاہم کامیابی کی یہ کہانیاں شازونادر ہی ہیں اور معمول کے مطابق نہیں ہیں۔

میں نے جن سیاحوں کا انٹرویو کیا ان سے رابطے میں رہی۔ ان میں سے زیادہ تر مایوس ہو کر ملک چھوڑ گئیں۔ کچھ نے کسی مرد کے ساتھ مختصر تعلق قائم کیا۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں یہ رشتے ختم ہو گئے کیونکہ اتنے طویل فاصلے سے انہیں برقرار رکھنا مشکل امر تھا۔

ایک ہسپانوی خاتون، جس کا میں نے انٹرویو کیا تھا، کا سپین واپس آنے کے فوراً بعد اپنے کورین بوائے فرینڈ سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ انہوں نے ایک انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا: ’تم نے مجھے درد کے سوا کچھ نہیں دیا۔‘

دوسری سیاح خواتین نے بھی جنوبی کوریا کو مایوسی کے ساتھ الوداع کیا۔ جن مردوں سے وہ ملیں وہ ٹی وی پر دکھائے گئے کے-ڈراموں کے مردوں کی طرح نہیں تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ وہ کوریا سے صرف جزوی طور پر مطمئن ہو کر یا مایوس ہو کر روانہ ہوئیں، جن خواتین کا میں نے انٹرویو کیا ان میں سے بہت سی اس خواہش پر ثابت قدم رہیں کہ وہ ایک دن ضرور کسی کورین مرد کی محبت پا لیں گئی۔ ان کا خیال تھا کہ اس بار محض قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور یہ کہ مستقبل میں جنوبی کوریا کے دورے کے دوران ایک پرفیکٹ مرد سے ملنے کا امکان اب بھی موجود ہے۔

2020 میں جنوبی کوریا کے فلم ڈائریکٹر بونگ جون ہو نے اپنی فلم ’پیرا سائیٹ‘ کے لیے گولڈن گلوب ایوارڈ جیتنے کے بعد کہا تھا کہ ’ایک بار جب آپ سب ٹائٹلز کی ایک انچ لمبی رکاوٹ کو عبور کر لیں گے تو آپ بہت سی مزید حیرت انگیز فلموں سے متعارف ہوں گے۔‘

میرے نزدیک، کے-ڈراموں کو دیکھ کر سیاح بننے والی ان خواتین کی کورین مردوں کے لیے خواہش، دوسری ثقافتوں کے میڈیا کی ناظرین کو نہ صرف جذباتی بلکہ جسمانی طور پر بھی متاثر کرنے کی طاقت کی نشاندہی کرتی ہے۔

کئی محققین نے ریسرچ کی ہے کہ کس طرح کچھ جاپانی لوگ برطانوی دور کے ڈراموں کو دیکھنے کے بعد برطانیہ کا دورہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ دوسرے محققین نے مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح اینیمیٹڈ فلموں نے جاپان میں امریکی سیاحت کو فروغ دیا ہے۔

سٹریمنگ پلیٹ فارمز کی مدد سے دیگر ثقافتوں کاانٹرٹینمنٹ مواد تک تیزی سے رسائی حاصل ہو رہی ہے۔ میں توقع کرتی ہوں کہ اس قسم کے میڈیا سے متاثر سیاحت مزید عام ہو جائے گی۔ 

دوسرے ممالک میں سیٹ فلمیں اور ٹی وی سیریز دور دراز کی ثقافتوں، نئی آوازوں اور غیر ملکی کھانوں کے بارے میں ناظرین کے تجسس کو بڑھا سکتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ میری تحقیق سے پتہ چلتا ہے وہ محبت اور رومانس کے بارے میں خیالی تصورات کو بھی بڑھا سکتے ہیں جن کا انجام ہمیشہ خوشگوار نہیں ہوتا۔

مصنفہ امریکہ میں ویلزلی کالج میں ویمن اینڈ جینڈر سٹڈیز کی وزیٹنگ لیکچرر ہیں۔

یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن پر چھپی تھی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر