پاکستانی مرد کیسے سوچتے ہیں؟

ایک اشتہار نے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو بہت ’اَپ سٹ‘ کر دیا ہے انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ حلیمہ بھابی پر اپنا غصہ کیسے نکالیں۔

ایسرا بیلگیچ نے غالباً اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ میں وہ اشتہار ڈالا تھا جہاں ہم پاکستانیوں نے اپنے جذبات کا اظہار ایسے کیا جیسے وہ سچ مچ ہماری بھابی ہوں(تصویر: ایسرا بیلگیچ انسٹاگرام )

ترک اداکارہ اسرا بیلگیچ المعروف حلیمہ سلطان مزید المعروف حلیمہ بھابی سے آج کل ہم بہت خفا ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک ایسے اشتہار میں کام کیا ہے جس میں انہوں نے ضرورت سے زیادہ جسم کی نمائش کی ہے۔

میں نے وہ اشتہار کئی مرتبہ دیکھا اور ہر مرتبہ اسے دیکھتے ہوئے میرے کان کی لوئیں سرخ ہو گئیں۔

مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہی حلیمہ سلطان ہیں جو ہمارے ارطغرل بھائی جان کی پاکباز اور عفت مآب بیوی ہیں۔ ایک منٹ، میں وہ اشتہار دوبارہ دیکھ لوں۔۔۔ جی ہاں، بالکل، حلیمہ سلطان ہی ہیں۔

اس اشتہار نے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو بہت ’اَپ سٹ‘ کر دیا ہے انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ حلیمہ بھابی پر اپنا غصہ کیسے نکالیں۔ کوئی پاکستانی عورت ہوتی تو ننگی گالیاں دے لیتے اور شاید غیرت کے نام پر قتل کرنے سے بھی نہ چوکتے جیسے کل ہی لاہور میں  ایک مرد نے اپنی بیوی کو ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ لگانے کی پاداش میں گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور بعد ازاں لاش بھی جلا دی۔

وہ عورت حاملہ تھی لیکن اِس حلیمہ سلطان کا کیا کریں، یہ تو ارطغرل کی بیوی ہے اور ارطغرل ہمارا ہیرو ہے۔

اسرا بیلگیچ نے غالباً اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ میں وہ اشتہار ڈالا تھا جہاں ہم پاکستانیوں نے اپنے جذبات کا اظہار ایسے کیا جیسے وہ سچ مچ ہماری بھابی ہوں۔

کسی نے کہا کہ ’حلیمہ باجی ایسے تو نہ کریں، دل دکھتا ہے‘ اور کسی نے لکھا کہ ’اگر پیسے چاہیے تھے تو پاکستان سے لے لیتی، کم ازکم یہ کام تو نہ کرتی۔‘

ایک بے بی نے تو یہ بھی لکھا کہ ’توبہ استغفراللہ ناک کٹوا دی ارطغرل بھائی کی‘ اور یہ بھی ملاحظہ کریں کہ ’جس نے بھی تمہیں ارطغرل ڈرامے کے لیے منتخب کیا وہ بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔‘

کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر اِس قسم کے تبصرے کرتے ہیں اُن کے اکاؤنٹس کی پڑتال کروں اور دیکھوں کہ وہ سارا دن کون کون سی ویب سائٹس دیکھتے ہیں اور کس سے کیا بات کرتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ میری یہ خواہش جائز نہیں کیوں کہ میں یہ نہیں چاہوں گا کہ کوئی میری ایسی پڑتال کرے۔ ویسے یہ بات میں نے خواہ مخواہ ہی کہہ دی، اِن لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لینے کے لیے ان کی پرائیویسی میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں، فقط ان کی پبلک پروفائل دیکھنےسے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قسم کے ’لوزر‘ ہیں۔

ایک طرف انہوں نے کوئی مذہبی قول لکھا ہوتا ہے اور دوسری طرف سنی لیون کی تصویر پسند کی ہوتی ہے، ایک طرف یہ خواتین کو اخلاقیات کا درس دیتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ان ہی خواتین کو ’براہ راست پیغام ‘ بھیجتے ہیں کہ ’مجھ سے دوستی کرو گی!‘

ایک مرتبہ ماہرہ خان کی کوئی تصویر گردش میں آ گئی، جسے آج کل عرف عام میں ’وائرل ہونا‘ کہتے ہیں۔ اُس تصویر میں وہ کسی فلم کے سیٹ پر موجود تھیں اور سگریٹ کے کش لگا رہی تھیں۔ بس پھر کیا تھا ہمارے بھائیوں کو غصہ آگیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک عورت، وہ بھی پاکستانی اور یوں سر عام سگریٹ پیے، یہ تو نہیں ہوسکتا! ہماری غیرت فوراً جاگ اٹھی اور ہم نے ماہرہ خان کے خوب لتے لیے۔ گذشتہ برس یوم آزادی کے موقع پر مہوش حیات نے اپنے انسٹاگرام پر ایک تصویر ڈالی جس میں وہ سفید کُرتا پہنے ہاتھ میں سبز پرچم لیے کھڑی تھیں۔

خدا جانتا ہے کہ مجھے اِس تصویر میں کوئی خاص بات نظر نہیں آئی مگر ایک سال بعد معلوم ہوا کہ اِس تصویر پر بھی خاصا ہنگامہ ہوا تھا کیوں کہ اُس میں مہوش حیات نے اپنے  ’ملبوسِ خاص‘ کے رنگ کا انتخاب ٹھیک نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے وہ سفید کرتے میں سے نظر آرہا تھا۔

اللہ کو جان دینی ہے، میں نے وہ تصویر دوبارہ دیکھی، یقین کریں کہ میں اُس میں سے کچھ نہیں نکال پایا، نہ جانے ہمارے بھائیوں کے دماغ میں کون سی ایکس رے مشین فِٹ ہے جس کی مدد سے وہ لباس کے آر پار بھی دیکھ لیتے ہیں۔

ہمارے مردوں کے لیے عورت چوں کہ بچپن سے ہی شجر ممنوعہ کی طرح ہوتی ہے اس لیے جہاں بھی یہ کوئی ’بولڈ‘ عورت دیکھتے ہیں  فوراً حواس باختہ ہو جاتے ہیں، اِن کی عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور یہ اسے لباس کی بنیاد پر ’جج‘ کرنا شروع کردیتے ہیں۔

یہ مرد چاہے جتنے بھی آزاد خیال کیوں نہ ہوں، اُن کی آزاد خیالی اُس وقت گھاس چرنے چلی جاتی ہے جب یہ کسی آزاد عورت کو اپنی مرضی سے کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، اُس وقت ان کے اندر کا روایتی مرد جاگ اٹھتا ہے جو کہتا ہے کہ ہم بتائیں گے کہ عورت نے کیسے کپڑے پہننے ہیں اور رہی بات اسرا بیلگیچ جیسی اداکارہ کی تو یہ بھی ہمارے دماغ کی خرابی ہے جس میں ہم اُس اداکارہ کو حقیقت میں حلیمہ سلطان ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔

ہمیں یہ ادارک ہی نہیں کہ وہ ایک پروفیشل ماڈل ہے جس کا کام اشتہارات میں کام کرنا ہے۔

ارطغرل میں اُس کا کردار ایک شریف اور با حیا بیوی کا ہے، اُس نے وہ کردار بخوبی نبھایا ہے، کل کو اسے کسی فلم میں فاحشہ کا کردار بھی مل سکتا ہے، اُس نے وہ بھی اسی طرح کرنا ہے۔

مگر ہم اپنے دماغ میں چوں کہ ارطغرل کو سچ مچ کا مسلم ہیرو سمجھ بیٹھے ہیں جس نے قرون اولیٰ کے دور کی یاد تازہ کردی ہے اور حلیمہ سلطان اُس کی بیوی ہے لہذا ہمیں وہ کسی ایسے اشتہار میں قبول نہیں جس میں وہ بے حیا لگے۔

مہوش حیات کا کرتا ہو، ماہرہ خان کا سگریٹ ہو یا اسرا بیلگیچ کا اشتہار میں کام کرنا ہو، ہمارے ہاں جب بھی کوئی مرد ان عورتوں کے حق میں اس دلیل کے ساتھ بات کرتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی مالک ہیں جو چاہیں کریں تو فوراً جواب میں ایک ہی گھسی ہوئی بات سننے کو ملتی ہے کہ کیا آپ اپنے گھر کی عورتوں کو یہ سب کرنے کی اجازت دیں گے۔

اس ’دلیل‘ سے ہی اندازہ لگا لیں کہ پاکستانی مرد کیسے سوچتے ہیں!
 

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  

ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔ 
 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ