عدم اعتماد تحریک: ایم کیو ایم کا اپوزیشن کی حمایت کا فیصلہ

ایم کیو ایم پاکستان کے اس فیصلے کے بعد بظاہر متحدہ اپوزیشن کے پاس ان نمبرز کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے جو اسے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے درکار ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں (تصویر: ایم کیو ایم ٹوئٹر)

وزیراعظم عمران خان نے آج دو بج کر 30 منٹ پر کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ 

وزارت اطلاعت کے بیان کے مطابق اجلاس میں اتحادی جماعتوں کے سربراہاں بھی خصوصی دعوت پر شامل ہوں گے۔ 

اجلاس میں کابینہ کے اراکین اور شرکا کو اس مراسلے کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا جس میں بارے میں وزیراعظم عمران خان دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہیں ’دھمکی آمیز خط‘ بھیجا گیا۔

---------------------------------------

ایم کیو ایم کا اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کی حمایت کا فیصلہ کرکے عمران خان کی حکومت کے لیے فی الحال عددی اکثریت کا خاتمہ کر دیا ہے۔

اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے ایک ٹویٹ کی جس میں بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن کی حمایت کے معاہدے کے بارے میں ان کی جماعت کی رابطہ کمیٹی سے منظوری لے گی۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی اپنی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کی منظوری کے بعد بدھ کی شام کسی وقت اس معاہدے کا باقاعدہ اعلان بھی کیا جائے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس معاہدے کی تصدیق اپنے ٹویٹر پیغام میں کی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے اس فیصلے کے بعد بظاہر متحدہ اپوزیشن کے پاس ان نمبرز کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے جو اسے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے درکار ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والے اعداد و شمار کے مطابق اب پارلیمان میں اس تحریک کو کامیاب کرانے کے لیے اپوزیشن کے پاس 174 ممبران قومی اسمبلی موجود ہیں اور وزیر اعظم عمران خان ایوان میں اپنی اکثریت بظاہر کھوچکے ہیں۔

بدھ کی صبح اسلام آباد میں ہونے والے حتمی مذاکرات میں ایم کیو ایم کی طرف سے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عامر خان، وسیم اختر، کنور نوید جمیل، امین الحق، فیصل سبز واری اور خواجہ اظہار الحسن نے شرکت کی تھی۔

دوسری جانب متحدہ حزب اختلاف میں کی نمائندگی مسلم لیگ ن کے رہنماؤں خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نوید قمر، شیری رحمان، مراد علی شاہ، مرتضی وہاب، سعید غنی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل نے کی تھی۔

پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ بدھ کی صبح طے پانے والے معاہدے کو اپوزیشن اپنا سرپرائز اور فیصلہ کن وار قرار دے رہی ہے اور بظاہر متحدہ حزب اختلاف کو اس معاہدے کے بعد حکومت پر پارلیمان میں عددی برتری حاصل ہو گئی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ اپوزیشن میں شامل تینوں بڑی جماعتوں کے ساتھ ماضی میں حکومتی اتحادوں کا حصہ رہ چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو کراچی سے بھاری مینڈیٹ ملا تھا اور تجزیہ کار اسے کراچی کے عوام کا پی ٹی آئی پر اعتماد اور ایم کیو ایم کے نعم البدل کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

لیکن پی ٹی آئی نے انتخابات کے بعد وفاق میں حکومت قائم کرنے کے لیے ایم کیو ایم سے اتحاد کیا۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار کامران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پی ٹی آئی نے اس مینڈیٹ کے بعد کراچی کا حال نہ پوچھا اور اس کے منتخب وزیر اعظم نے ساڑھے تین سالوں میں ایک رات کراچی میں گزارنا مناسب نہ سمجھا۔

اب متحدہ اپوزیشن کا دعوی زور پکڑ گیا ہے کہ اسے حکمراں جماعت پر برتری حاصل ہوگئی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الہی نے گذشتہ روز حکومتی اتحاد کا حصہ رہنے اور تحریک عدم اعتماد میں حکومت کی حمایت میں ووٹ دینے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد حکمراں جماعت کے رہنما اسے اس تحریک میں اپنی کامیابی اور اپوزیشن کی شکست گردان رہے تھے۔​

​تاہم 24 گھنٹوں کے دوران ایم کیو ایم سے معاہدے کے بعد وہی دعوے اب متحدہ اپوزیشن کے رہنما کر رہے ہیں اور عمران خان کے اعتماد کھو دینے کے دعوے کر رہے ہیں۔

آج پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’عمران خان اکثریت سے محروم ہوگئے ہیں۔‘

متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدے کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئی ہیں لیکن روزنامہ جنگ کے مطابق ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد میں اپنے ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی اور بلدیاتی انتخابات کے بل میں ترامیم واپس لینے جیسے مطالبات منوائے ہیں۔

اس کے علاوہ تحریک کے کامیاب ہونے پر ایم کیو ایم کے لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس کے دفاتر کھولنے جیسے اقدامات پر عمل درآمد بھی شروع ہوجائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست