عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد: ایم کیو ایم کہاں کھڑی ہے؟

قومی اسمبلی میں سات نشستوں كے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ، تحریک عدم اعتماد كے تناظر میں پی ٹی آئی حكومت اور حزب اختلاف دونوں كے لیے اہم جماعت بن گئی ہے اور دونوں ہی اس کی حمایت حاصل کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔

نو مارچ 2022 کو وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی (تصویر: ایم کیو ایم ٹوئٹر اکاؤنٹ)

وفاقی حکومت میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم كیو ایم) نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اپنا لائحہ عمل صیغہ راز بنائے رکھا ہے، تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے تحریک عدم اعتماد کی حمایت بظاہر زیادہ سود مند ثابت ہوسكتی ہے۔ 

صوبہ سندھ كی سیاست پر نظر ركھنے والے صحافیوں اور تجزیہ كاروں كے خیال میں ایم كیو ایم كے لیے حزب اختلاف كے ساتھ چلنے كے زیادہ واضح امكانات موجود ہیں اور اس كی بڑی وجہ اس جماعت كے ان مطالبات كو قرار دیا جاتا ہے جو یہ حكومت اور اپوزیشن كے سامنے ركھتی رہی ہے۔ 

كراچی سے تعلق ركھنے والے صحافی عبدالجبار ناصر كے مطابق: ’ایم كیو ایم كے بیشتر مطالبات سندھ حكومت كے تعاون اور مدد سے ہی پورے ہو سكتے ہیں، جو اس وقت پیپلز پارٹی كے پاس ہے اور مستقبل میں بھی یہاں اسی پارٹی كے اقتدار میں آنے كے واضح امكانات ہیں۔‘ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے كہا كہ اسی وجہ سے ایم كیو ایم میں اكثریت حزب اختلاف كے ساتھ جانا چاہتی ہے، تاہم كچھ عناصر ماضی كے تجربات كی روشنی میں پیپلز پارٹی پر اعتبار كرنے كو تیار نہیں۔   

انہوں نے كہا كہ ایم كیو ایم اور اپوزیشن كے درمیان 90 فیصد بات مكمل ہو چكی ہے اور امكان یہی ہے كہ جماعت كے اراكین قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد كی حمایت میں ووٹ استعمال كریں گے۔ 

یاد رہے كہ حزب اختلاف كی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی تحریک جمع كروا ركھی ہے، جس كے باعث تحریک انصاف حكومت كے اتحادیوں كی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ 

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف كی جماعتوں كو 162 اراكین كی حمایت حاصل ہے، جبكہ تحریک عدم اعتماد كی كامیابی كے لیے 172 ایم این ایز كی ضرورت ہے۔ 

قومی اسمبلی میں سات نشستوں كے ساتھ ایم كیو ایم تحریک عدم اعتماد كے تناظر میں تحریک انصاف كی وفاقی حكومت اور حزب اختلاف دونوں كے لیے اہم جماعت بن گئی ہے۔  

گذشتہ دو ہفتوں كے دوران پاكستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں كے رہنما ایم كیو ایم سمیت دوسرے حكومتی اتحادیوں كو اپنی اپنی حمایت كے لیے راضی كرنے كی سر توڑ كوششیں كر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی رواں ماہ کراچی میں ایم کیو ایم کے دفتر میں رہنماؤں سے ملاقات کی۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں تحریک عدم اعتماد پر بات نہیں ہوئی۔

ایم كیو ایم 2018 كے عام انتخابات كے بعد سے پاكستان تحریک انصاف كی وفاقی حكومت كا حصہ ہے، جس میں اس جماعت كے پاس دو وزارتیں ہیں۔ 

ایم كیو ایم سے تعلق ركھنے والی ركن قومی اسمبلی كشور زہرا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں كہا: ’اب ایم كیو ایم كو تحریری اور پكے وعدے چاہییں، ہم نے جھوٹے وعدوں پر بہت جی لیا۔‘ 

انہوں نے مزید بتایا كہ ان كی جماعت اپنے مطالبات سے متعلق تحریری معاہدہ بنا كر حكومت اور اپوزیشن كو دے چكی ہے اور جو اسے مان لے گا، ایم كیو ایم تحریک عدم اعتماد میں اس كے ساتھ ہوگی۔  

ایم كیو ایم كے مطالبات كیا ہیں؟ 

كنوینر ایم كیو ایم ڈاكٹر خالد مقبول صدیقی كا كہنا ہے كہ ان كی جماعت وزارت اعلیٰ یا وزارتوں كا مطالبہ نہیں كر رہی، بلكہ وہ سندھ كے شہری علاقوں كے لیے بنیادی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ 

تحریک انصاف اور حزب اختلاف كی جماعتوں كے سامنے ایم كیو ایم جو مطالبات ركھتی رہی ہے، ان كی مختصر تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ 

بلدیاتی نظام: ایم كیو ایم كا سب سے بڑا مطالبہ ایسی قانون سازی ہے، جس كے ذریعے اختیارات كو بلدیاتی اداروں تک منتقل كیا جا سكے۔ 

صحافی عبدالجبار ناصر نے بتایا كہ ایم كیو ایم سندھ كے شہری علاقوں خصوصاً كراچی میں اپنا میئر چاہتی ہے، تاكہ وہاں اس كا ووٹ بینک برقرار رہ سكے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے كہا كہ بلدیاتی اداروں كے قیام اور مضبوطی كا تعلق صوبائی حكومت سے ہے اور صوبے میں برسر اقتدار پارٹی یعنی پیپلز پارٹی متحدہ اپوزیشن كا حصہ ہے۔ 

ان کے مطابق: ’اس سے بڑی حد تک واضح ہو جاتا ہے كہ ایم كیو ایم تحریک عدم اعتماد كے سلسلے میں كیوں اپوزیشن كا ساتھ دے گی۔‘ 

كنوینر ایم كیو ایم ڈاكٹر خالد مقبول كا كہنا تھا كہ اٹھارویں ترمیم كے بعد بلدیاتی اداروں كے سلسلے میں سب كو جو ملنا ہے وہ صوبائی حكومتوں سے ہی ملے گا، تاہم عمل در آمد كی یقین دہانی ضروری ہے۔  

انہوں نے كہا كہ ایم كیو ایم نے کئی روز قبل پیپلز پارٹی كو تحریک عدم اعتماد كے آخری مراحل سے پہلے بلدیاتی نظام كے متعلق  قانون سازی كرنے كو كہا لیكن ایسا نہ ہو سكا۔ 

عبدالجبار ناصر كے مطابق پیپلز پارٹی كراچی میں ایم كیو ایم كو میئر كی نشست دینے پر راضی ہو چكی تھی، تاہم جماعت كے اندر سے مخالفت كے باعث لیڈرشپ كو پیچھے ہٹنا پڑا۔ 

سركاری ملازمتوں كا كوٹہ: ڈاكٹر خالد مقبول كا دعویٰ تھا كہ گذشتہ 15 برس كے دوران كراچی میں صوبائی سیكریٹریٹ میں سندھ كے شہری علاقوں سے كسی كو نوكری نہیں ملی اور وہاں ’دیہی علاقوں كا قبضہ‘ محسوس ہوتا ہے۔ 

انہوں نے كہا كہ ایم كیو ایم صوبہ سندھ كی تمام ملازمتوں میں شہری علاقوں كے لیے مختص 40 فیصد كوٹے پر سختی سے عمل درآمد چاہتی ہے۔ ’ماضی میں اس سلسلے میں وعدے بہت ہوئے لیكن عملی اقدام ندارد۔‘ 

عبدالجبار ناصر كا كہنا تھا كہ ایم كیو ایم كے اس مطالبے كا تعلق بھی وفاقی حكومت سے كسی صورت نہیں بنتا، بلكہ یہ سندھ كی صوبائی حكومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ 

دفاتر كا كھولا جانا: ایم كیو ایم كی لیڈرشپ كے مطابق كراچی اور سندھ كے دوسرے بڑے شہروں میں جماعت كے تقریباً ایک سو دفاتر كو قانون نافذ كرنے والے اداروں نے بند كر ركھا ہے۔ 

تحریک عدم اعتماد كی حمایت یا مخالفت كے لیے ایم كیو ایم اپوزیشن اور تحریک انصاف كے ساتھ مذاكرات میں اس كے سیل شدہ دفاتر كو كھلوانے كو بھی مطالبے كے طور پر ركھتی رہی ہے۔ 

عبدالجبار ناصر كا كہنا تھا كہ دفاتر كے بند ہونے كے باعث ایم كیو ایم كی عوامی سطح پر سیاسی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ 

انہوں نے مزید كہا كہ بند دفاتر میں ایم كیو ایم كی ذیلی تنظیم خدمت خلق فاؤنڈیشن كے دفاتر بھی شامل ہیں، جس كی وجہ سے جماعت كے سماجی منصوبے ركے ہوئے ہیں۔ 

عبدالجبار ناصر نے كہا كہ اگرچہ دفاتر كا كھولا جانا وفاقی موضوع ہے تاہم تحریک انصاف حكومت ساڑھے تین سالوں میں اس مطالبے كو پورا كرنے میں ناكام رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا: ’ویسے بھی دفاتر كو كھولنے كے سلسلے میں ایم كیو ایم مستقبل كی وفاقی حكومت سے مدد لے سكتی ہے، جو عین ممكن ہے كہ اپوزیشن كی كسی جماعت كے حصے میں ہو۔‘ 

اپوزیشن كے ساتھ جانے كی دیگر وجوہات 

عبدالجبار ناصر كا خیال تھا كہ ایم كیو ایم كی لیڈرشپ پاكستان تحریک انصاف كی غیر مقبولیت سے بخوبی آگاہ ہے، جو تحریک عدم اعتماد كی حمایت كرنے كی ایک بڑی وجہ ہو سكتی ہے۔ ’ایم كیو ایم كبھی نہیں چاہے گی كہ وہ پی ٹی آئی كا مزید بوجھ اٹھائے۔‘ 

انہوں نے مزید كہا كہ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں خصوصاً چھوٹی پارٹیاں آئندہ انتخابات پر نظر ركھے ہوئے ہیں اور ایم كیو ایم پیپلز پارٹی كے ساتھ مخالفت كی فضا بنا كر آنے والے الیكشن میں نقصان ہی اٹھا سكتی ہے۔ 

انہوں نے ایم كیو ایم كی تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن كی حمایت كرنے کی مزید وجہ بتاتے ہوئے كہا كہ یہ جماعت ہمیشہ آخری چھ ماہ میں حكومت سے الگ ہو جاتی ہے۔ 

’اس طرح یہ عوام كو یہ تاثر دینے كی كوشش كرتے ہیں كہ حكومت میں ان كا اختیار نہ ہونے كے برابر تھا اور اسی لیے لوگوں کے كام نہیں ہو سكے۔‘ 

ڈاكٹر خالد مقبول صدیقی نے جیو نیوز كے ایک ٹاک شو میں كہا تھا: ’اب حكومت كا بچنا مشكل لگ رہا ہے، كیونكہ ان كے اپنے لوگ چلے گئے ہیں۔ اب ہم بھی (تحریک انصاف) حكومت كو نہیں بچا پائیں گے۔‘ 

تاہم انہوں نے اگلے ہی سانس میں كہا كہ ایم كیو ایم نے تحریک عدم اعتماد كی حمایت یا مخالفت كرنے كا فیصلہ تاحال نہیں كیا ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست