تحریک انصاف کے مسائل رہنماؤں کے بیانات سے جڑے ہیں؟

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم اور ترجمانوں نے حکومتی اتحادیوں اور بظاہر منحرف ہوجانے والے اراکین کے خلاف جو زبان استعمال کی اس سے ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔

تحریک انصاف کے چند شعلہ بیان رہنما (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں جاری سیاسی تناؤ میں وقت کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے، جس کی بڑی وجہ حکومتی جماعت کے متعدد اراکین اسمبلی اور اتحادیوں کی اپوزیشن سے بڑھتی ہوئی قربت اور حکومت سے دوری ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ماحول میں خاص طور پر تحریک انصاف کے لیے مشکلات میں اضافے کا بڑا سبب وزیراعظم عمران خان اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بے بنیاد الزامات اور ذاتی تضحیک دکھائی دے رہی ہے۔

منحرف اراکین حکومت جب سے اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں منظر عام پر آئے ہیں، حکومتی حلقوں سے ان پر اس شدت سے تنقید کی اور ان کے خلاف نازیبا گفتگو میڈیا پر کی کہ ان کی بظاہر واپسی کے تمام راستے بند کر دیئے۔

حزب اختلاف تو حکمراں جماعت کی توپوں کی زد میں ہمیشہ رہی ہے لیکن اپنے ہی ناراض اراکین کو اس طرح نشانہ بنانا، سیاسی پنڈتوں کے بقول کسی سیاسی بصریت رکھنے والے کے لیے موزوں ردعمل نہیں تھا۔ سیاست میں ہمیشہ واپسی کا راستہ رکھا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کے بیانات نے اپنے ہی اراکین کو مخالفت میں مزید سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور کیا، جو ان کے میڈیا میں انٹرویوز سے ثابت ہوا۔

وزیراعظم پاکستان کی جانب سے بھی منحرف اراکین کو بے ضمیر اور چوروں کا ساتھ دینے والے قرار دیا گیا ہے جبکہ اب انہیں منانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مانسہرہ میں جعمے کو جلسہ عام سے خطاب کا آغاز انہوں نے ایک مرتبہ پھر ’ڈیزل‘ کے ذکر سے کیا۔

وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے بھی ق لیگ کے بارے میں نام لیے بغیر ’بلیک میلر‘ کا بیان ناراضی کی وجہ بنا، جس پر انہوں بعد میں معذرت بھی کی۔

ترجمان وزیراعظم شہباز گل کی جانب سے بھی روٹھے اراکین سے متعلق قابل اعتراض تنقید پر ایم این اے باسط سلطان نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ کسی منحرف رکن یا اتحادیوں کے بارے میں بعض رہنماؤں کے بیان ان کی ذاتی رائے ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم اور ترجمانوں نے حکومتی اتحادیوں اور بظاہر منحرف ہوجانے والے اراکین کے خلاف جو زبان استعمال کی اس سے ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔

الزام تراشیوں کا سلسلہ کب شروع ہوا؟

حکومت میں شامل ہونے والی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، بی اے پی اور بعض پی ٹی آئی میں شامل اراکین کو ساڑھے تین سال میں کئی بار تحفظات کا اظہار کرنا پڑا لیکن حکومت انہیں مناتی رہی۔

لیکن چینی پر تحقیقاتی کمیشن کی جب جہانگیرترین کے خلاف رپورٹ آئی اور ان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کارروائی شروع کی تو جہانگیر ترین کی قیادت میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے کچھ اراکین پر مشتمل گروپ بن گیا۔

ان اراکین نے حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا لیکن ان کو بات نہ سننے کا شکوہ رہا۔ پھر علیم خان کے خلاف نیب نے کارروائی کی تو وہ بھی سینیئر وزارت سے استعفیٰ دے کر خاموش بیٹھ گئے۔

جب اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی مہم شروع کی تو نہ صرف یہ دونوں گروپ بلکہ اتحادی جماعتوں اور کئی ناراض اراکین نے اپوزیشن کے ساتھ ملاقاتوں میں معاملات طے کرنا شروع کر دیے۔

اس صورت حال میں وزیراعظم اور حکومتی وزرا نے اپنی صفوں میں بغاوت روکنے کی کوششیں شروع کر دیں لیکن اتحادیوں اور اپنے ناراض اراکین کے خلاف میڈیا پر بیانات بھی جاری کرنا شروع کر دیے۔

سندھ ہاؤس سے رواں ماہ جب بعض اراکین نے میڈیا پر آکر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اشارہ دیا تو وزیراعظم اور وزرا کی جانب سے ان کے خلاف بیانات شروع ہوگئے۔

پی ٹی آئی کے ناراض ایم این اے راجہ ریاض احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح حکومت نے انہیں نظر انداز کیا وزیراعظم نے بغیر ثبوت اپوزیشن سے 18، 18 کروڑ روپے لے کر ضمیر بیچنے کے بیان دیے، ٹاک شوز میں حکومتی ترجمانوں نے ان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی تو انہوں نے حکومت سے بالکل راہیں جدا کرلیں۔‘

راجہ ریاض کے مطابق ایک طرف واپسی کی اپیل دوسرے جانب عوام کو ہمارے خلاف بھڑکانے کی کوشش شروع ہوگئی۔

ان کے مطابق: ’وزیراعظم نے ہمارے خلاف امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ترویج شروع کر دی، اعلانات کیے گئے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران کوئی رکن اسمبلی نہیں جائے گا اور جو جائے گا اس کا گھراؤ کریں گے۔‘

راجہ ریاض کے بقول: ’یہ کون سا طرز سیاست ہے؟ اگر ہم اپنے ساتھ زیادتیوں پر نالاں ہوکر حکومت کے خلاف ووٹ ڈالنے کا جمہوری حق استعمال کریں تو ہمیں اس طرح گندہ کیا جائے گا؟‘

انہوں نے کہا کہ ’پہلے ہمارے ساتھ چند اراکین تھے لیکن وزیراعظم اور ترجمانوں کی قابل مذمت زبان استعمال کرنے پر تعداد 24 تک پہنچ گئی۔ حکومت ثابت کردے کہ ہم میں سے کسی رکن نے پیسے لے کر وفاداریاں بدلیں۔ ہم بلامشروط مخالفت چھوڑ دیں گے ورنہ وزیراعظم استعفیٰ دیں۔‘

راجہ ریاض نے کہا کہ ’حکومت نے اپنوں پر ہی الزامات لگا کر ڈیڈ لاک پیدا کیا ہے۔ اگر زبان قابو میں رکھتے تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیئر صحافی سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاست میں صبر و تحمل اور زبان کا استعمال اہم ہوتا ہے وزیراعظم سب کے لیے بڑے ہوتے ہیں۔ اگر وہی اپنے اراکین کے خلاف اس طرح مہم چلائیں گے تو وہ تو کبھی ساتھ نہیں رہیں گے اور سیاسی انداز میں اپنی ساکھ بحال کریں گے۔‘

سلمان غنی کے بقول: ’پی ٹی آئی اراکین کو پنجاب حکومت نے بھی تنگ کیا۔ ان کے کام نہیں ہوئے۔ دوسری جانب سوتیلوں جیسا سلوک کیا گیا، جب انہوں نے اظہار کیا تو ان کے خلاف بیان بازی شروع کر دی گئی، ایسے تو بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں جبکہ سیاست نام ہی مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا ہوتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر حکومت کو اندازہ ہو بھی گیا تھا کہ ان کے اتحادی اور اراکین اپوزیشن کا ساتھ دینے کی حکمت عملی بنا رہے ہیں تو سیاسی طور پر انہیں آخری حد تک منانے کی کوشش کرنا چاہیے تھا نہ کہ بیان بازی پر زور دینا جس سے حالات تبدیل بھی ہوسکتے تھے۔‘

حکومتی بیان بازی پر وضاحت اور ڈیڈ لاک

ترجمان تحریک انصاف پنجاب مسرت جمشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات ٹھیک ہے کہ بعض منحرف اراکین کے خلاف ٹاک شوز میں کسی نے نازیبا زبان کا استعمال کیا ہوگا لیکن وہ ان کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے۔ پارٹی کی سطح پر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی ناراض رکن کو پبلک میں بے عزت کر دے۔‘

ان کے بقول: ’اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی اور پارٹی پالیسی کے خلاف جانے والوں سے متعلق جو مہم شروع ہوئی وہ پارٹی کا آئینی حق ہے کہ جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتے اور اپنے ہی لیڈر کے خلاف سازش کا حصہ بنے، ان پر ہمارے ووٹر سپورٹر غصہ تو ہوں گے۔‘

مسرت جمشید نے کہا کہ ’البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ کئی اراکین کے پنجاب میں مکمل کام نہیں ہوئے کیوں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے جو اختیار میں تھا، انہوں نے وہ کیا۔ جو سسٹم کے تحت نہیں ہوسکتا تھا وہ نہیں ہوسکا اس میں روکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔‘

دوسری جانب راجہ ریاض کہتے ہیں کہ ’حکومت نے منتخب اراکین کی سلیکٹڈ عہدیداروں سے تذلیل کرائی اور سنگین الزامات لگا کر حلقوں میں سیاسی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ اب ہمارے تمام منحرف اراکین کسی صورت حکومت کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔‘

اسی طرح سلمان غنی کے بقول: ’حکومتی ناراض اراکین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے، اس کے بعد انہیں آئندہ حلقوں کے عوام میں بھی جانا ہے۔ ان حالات کے بعد وہ کبھی اپنی جماعت کے ساتھ نہیں جائیں گے جنہوں نے ان کو مخالفوں سے بھی بدتر سمجھ کر پروپیگنڈا کیا ہے۔‘

اب اطلاعات ہیں کہ شدید بیان بازی کے بعد ناراض اراکین سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست