ایم کیو ایم کی سیاسی غلطیاں

آج وہ صورت حال ہے جو 2008 میں تھی جب عدلیہ بحالی کی تحریک میں ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ فوجی آمر جنرل مشرف کی حمایت کریں گے۔

حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے کارکن ان کے رہنما الطاف حسین کی ضمانت پر 2014 میں رہائی کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کر رہے ہیں (اے ایف پی)

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پر بات کرنے سے پہلے میں آپ سب سے سانحہ اے پی ایس پشاور میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لیے فاتحہ پڑھنے کی درخواست کرتا ہوں۔ 16 دسمبر ہی وہ دن بھی تھا جب سقوط ڈھاکہ ہوا۔ اس سانحہ سے فیصلہ سازوں نے کچھ نہیں سیکھا اس پر ماتم بھی ہم سب کو کرنا چاہیے۔

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 

میری کراچی میں پرورش اسی محلے میں ہوئی جہاں قائد تحریک الطاف حسین کی رہائش تھی۔ اسے عرف عام میں نائن زیرو کہا جاتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس پارٹی کو بنتے دیکھا۔

ایم کیو ایم کئی لحاظ سے ایک امتیازی سیاسی پارٹی ہے۔ اگرچہ اس کی پہچان یہ ہے کہ آزادی کے بعد جو لوگ بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے یہ ان کی نمائندہ جماعت ہے۔ مگر یہ واحد امتیاز نہیں ہے۔

ایم کیو ایم کافی عرصہ تک کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے پڑھے لکھے متوسط طبقے کی نمائندہ رہی۔ اس جماعت میں کسی حد تک جمہوری روایات بھی ہیں اور اس کے ٹکٹ میرٹ کی بنیاد پر پارٹی کارکنوں کو دیئے جاتے رہے اور موروثی سیاست کی چھاپ ان پر کبھی نہیں لگی۔ آج بھی رابطہ کمیٹی کے تمام ارکان متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

بہت سی مثبت خصوصیات ایم کیو ایم میں ہیں لیکن اسی کے ساتھ کچھ منفی رجحانات بھی ان میں نظر آئے۔ پارٹی مخالفین اور کارکن جنہوں نے بانی قائد سے اختلاف کیا ان کی بوری بند لاشیں ملتی رہیں۔ کراچی کو انہوں نے سونے کی چڑیا جانا اور بھتہ اور چائینہ کٹنگ کو ان کے دور میں فروغ ملا۔

کسی زمانے میں کراچی اپنے تعلیمی معیار کی وجہ سے سب سے آگے تھا مگر آج بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ اس کی ذمہ داری بھی کسی حد تک ایم کیو ایم پر ہی ہے۔ لیکن سب سے اہم تصور ان کے بارے میں یہ ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا دائیاں بازو ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ضیا الحق نے انہیں بنایا اور مشرف نے انہیں بڑھایا۔ جب بھی اسٹیمبلشمنٹ کو کسی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت پڑی ایم کیو ایم حاضر رہی اور کراچی شہر کو بند کرتی رہی۔ اس سے اس شہر کی اقتصادی ترقی کو بےانتہا نقصان پہنچا۔ بہت سی صنعتیں اسی وجہ سے کراچی سے فیصل آباد اور لاہور منتقل ہو گئیں۔ اس کا الزام ایم کیو ایم کسی اور کو نہیں دے سکتی۔

آج وہ صورت حال ہے جو 2008 میں تھی جب عدلیہ بحالی کی تحریک میں ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ فوجی آمر جنرل مشرف کی حمایت کریں گے۔ 2008 مئی میں کراچی میں جو قتل و غارت ہوا اس کا الزام بھی ایم کیو ایم کو دیا جاتا ہے۔

ان تمام سیاسی غلط فیصلوں کا نتیجہ یہ نکلا کے آج متوسط طبقہ کی ایک ہم سیاسی جماعت بستر مرگ پر ہے۔ میں نے ایم کیو ایم کی قیادت سے کئی مرتبہ رابطہ کیا اور انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ قومی سیاسی مذاکرات میں کراچی کے مسائل کا دیرپا حل تلاش کیا جائے گا۔ مگر ایسا لگتا ہے پارٹی کسی اشارے کی منتظر ہے۔ 

اگر مسلم لیگ ق اشاروں کا انتظار کرے تو سمجھ میں آتا ہے اس لیے کہ یہ سیاسی پارٹی ہی نہیں ہے بلکہ دو چوہدریوں کی سیاست ہے۔ ان کا کردار سیاسی بارگینر کا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جبکہ ایم کیو ایم ایک سیاسی پارٹی ہے اگر وہ قومی سیاسی مزاکرات نہ کر سکے اور ایک ناکام حکومت کو سہارا دینے کے لیے کھڑے رہے تو یہ اس پارٹی کی سیاسی موت کا سبب بنے گا۔ کراچی کے لوگ آئندہ الیکشن میں انہیں مکمل رد کر دیں گے۔

جماعت اسلامی کو بھی ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور پی ڈی ایم کی دیگر پارٹیوں سے رابطہ کرنا چاہیے تاکہ قومی سیاسی مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو۔ اس میں مزید دیر ملک کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ کو کسی طور سیاسی معاملات میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ فوج کا کام ملکی دفاع ہے جمہوریت کی سیاسی کشمکش میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔

۔۔۔۔

اس تحریر میں دی جانے والی رائے مصنف کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ