الطاف بھائی: اتنی محبت، اتنی نفرت

الطاف حسین پاکستان کی سب سے متنازع شخصیات میں سے ایک کیسے بن گئے؟

الطاف حسین کی زندگی نشیب و فراز کا مرقع ہے (اے ایف پی)

پاکستان کی تاریخ میں بہت کم شخصیات ایسی ہوں گی جن سے بیک وقت اتنی محبت اور اتنی نفرت کی گئی ہو۔ ان میں سے ایک کردار الطاف حسین ہیں۔

ایک طرف تو کراچی کی مہاجر برادری کا بڑا حصہ انھیں اپنا نجات دہندہ اور مڈل کلاس پڑھے لکھے طبقے کے حقوق کا رکھوالا سمجھتا تھا، تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کے خیال میں الطاف حسین کے ہاتھ ہزاروں لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

الطاف حسین اس قدر متنازع اور منقسم کرنے والی شخصیت کیسے بن گئے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں ان کے ماضی پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔

1953: کراچی میں پیدائش

الطاف حسین 17 ستمبر 1953 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین آگرہ سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ انہوں نے کراچی کے عزیز آباد کے علاقے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

1978: اے پی ایس ایم او کا قیام

اسلامیہ سائنس کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں فارمیسی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا، جہاں انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 11 جون 1978 کو کراچی یونیورسٹی میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن قائم کی، جس کا مقصد صوبہ سندھ میں آباد اردو بولنے والی آبادی کے ساتھ برتی جانے والی مبینہ ’نسلی اور لسانی ظلم و ستم‘ کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔

یہ وہی زمانہ تھا جب ملک میں ضیاء الحق کا مارشل لا قائم تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عام طور پر الطاف حسین کو اے پی ایم ایس او کا بانی سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اے پی ایم ایس او کے پہلے چیئرمین عظیم طارق اور جنرل سیکریٹری ڈاکٹرعمران فاروق تھے۔ یہ الگ بات کہ الطاف حسین نے شہرت و مقبولیت میں ان دونوں کو اس قدر پیچھے چھوڑ دیا کہ آج ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر اے پی ایس او کے قیام کے بارے میں لکھے گئے صفحے پر عظیم طارق اور عمران فاروق کا نام تک درج نہیں۔

اے پی ایم ایس او کو تیزی سے مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی اور اس کی شاخیں سندھ بھر کے تعلیمی اداروں میں پھیل گئیں۔ 1979 میں مارشل لا حکومت نے الطاف حسین کو بہاری مہاجرین کے حق میں مظاہرے کے دوران گرفتار کر کے نو ماہ کے لیے جیل بھیج دیا۔

1984: ایم کیو ایم کی داغ بیل

اے پی ایس او کی پذیرائی دیکھتے ہوئے الطاف حسین نے 18 مارچ 1984 ایم کیو ایم کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ اس زمانے میں سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والی اردو برادری کو حکومت سے کئی شکایات تھیں۔ جن میں سرِ فہرست سندھ میں کوٹا سسٹم تھا جس کے تحت دیہی علاقوں میں بسنے والوں کو تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں ترجیحی بنیادوں میں داخلے ملتے تھے۔ دوسری طرف کراچی میں پشتون، پنجابی، اور دوسری قومیتوں کے افراد کی بڑی تعداد میں آمد سے بھی مہاجروں کو خدشات لاحق ہونا شروع ہو گئے۔

الطاف حسین نے مہاجر قومیت کارڈ کھیلا اور اب تک گالی سمجھے جانے والے لفظ ’مہاجر‘ کو سیاسی مہم کا حصہ بنا لیا۔

15 اپریل 1985 کی صبح بشریٰ زیدی نامی ایک 20 سالہ مہاجر لڑکی کے ٹریفک حادثے میں ہلاکت ایم کیو ایم کی تاریخ کا اہم موڑ ہے جس کے بعد کراچی بھر میں نسلی اور لسانی بنیادوں پر فسادات شروع ہو گئے جن میں 60 سے زیادہ افراد مارے گئے۔

اس کے دو سال بعد جب بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم نے سندھ کے تمام شہروں میں کلین سویپ کر دیا۔

1988: تیسری قوت

1988 میں جنرل ضیاء الحق جہاز کے حادثے میں ہلاک ہوئے تو ملک میں انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی۔ ان انتخابات میں ایم کیو ایم قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 27 نشستیں جیت کر ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر سب کو حیرت زدہ کر گئی۔

تاہم الطاف حسین نے خود انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور قائدِ تحریک بن کر جماعت کے معاملات چلاتے رہے۔

اسی زمانے میں الطاف حسین اور ان کی جماعت کے خلاف تشدد کو بطور سیاسی حربہ استعمال کرنے کے الزامات لگتے رہے۔

1992: خود ساختہ جلاوطنی

21 دسمبر 1991 کو الطاف حسین پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کے چند ماہ بعد وہ ملک چھوڑ کر برطانیہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔ 1992 میں نواز شریف کے دور میں ایم کیو ایم کے خلاف ’آپریشن کلین اپ‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔

2002: برطانوی شہریت

2002 میں برطانیہ نے نہ صرف الطاف حسین کو شہریت دے دی بلکہ ان کے علاوہ بھی ایم کیو ایم کے بہت سے ارکان کو برطانیہ نے اپنے ہاں خوش آمدید کہا اور انھیں لندن میں مرکوز ہونے دیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ برطانوی حکومت پاکستان میں ایم کیو ایم کے سیاسی اثر و رسوخ سے سفارتی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اس کی ایک شہادت اس بات سے ملتی ہے کہ چند برس پہلے الطاف حسین کا ایک خط سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے برطانوی حکومت کو اپنی خدمات پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم ایم کیو ایم نے اس خط سے برات کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان میں الطاف حسین کے خلاف 30 سے زیادہ قتل کے الزامات کے تحت مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر الزام لگتے رہے کہ وہ لندن سے تقریریں کر کے پاکستانی عوام کو تشدد کے لیے اکساتے ہیں۔

2016: تشدد پر اکسانے کے الزام

2016 میں ان کی ایک تقریر سننے کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں نے ایک ٹی وی چینل کے دفتر پر حملہ کر دیا، جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے الطاف حسین کی میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی، جس کے بعد سے ان کا نام لینا بھی پاکستانی میڈیا پر ممنوع ٹھہرا اور انہیں ’بانیِ ایم کیو ایم‘ کہہ کر مخاطب کیا جانے لگا۔ اس کے بعد ایم کیو ایم دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی، ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان۔ 

ایم کیو ایم لندن کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی اور اس کے کارکن زیرِ زمین چلے گئے، جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی چلی گئی۔ 

2016: لندن میں پہلی گرفتاری اور بریت

تاہم ان کی زندگی کا ایک اور ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب 2016 میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے ان کے دفتر اور گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے پانچ پاؤنڈ کیش برآمد کر لیا۔ یہی نہیں بلکہ وہاں سے ایسی دستاویزات برآمد ہوئیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ ایم کیو ایم کو بھارتی خفیہ ایجنسی را سے مالی امداد ملتی تھی۔

البتہ چند ماہ کے بعد میٹ پولیس نے یہ کر کہہ کر تحقیقات ختم کر دیں کہ انہیں کافی شواہد نہیں ملے اور نہ ہی اس بات کا ثبوت ملا کہ یہ رقم مجرمانہ طریقے سے حاصل کی گئی تھی یا اس رقم کو غیر قانونی کاموں کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

2019: دوبارہ حراست میں

11 جون 2019 میں میٹروپولیٹن پولیس نے ایک بار پھر الطاف حسین کو گرفتار کر لیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے تقاریر کے ذریعے بیرونِ ملک لوگوں کو تشدد کے لیے اکسایا ہے۔ البتہ بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

10 اکتوبر: فردِ جرم عائد

لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے الطاف حسین پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت دہشت گردی پر اکسانے کے الزامات پر فرد جرم عائد کر دی۔ پولیس نے الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقاریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین نے کراچی میں ایک تقریر کے ذریعے لوگوں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ دہشت گردی پر اکسایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان