مصطفیٰ کمال کو یاد مت دلائیں کہ وہ کبھی ایم کیو ایم کا حصہ تھے

پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ کو اگر تھوڑا سا غصہ دلانا ہو تو انھیں صرف یہ یاد دلا دیں کہ وہ کبھی ایم کیو ایم کا حصہ تھے۔

جس طرح تمام سیاسی جماعتیں آرمی ایکٹ قانون پاس کروانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں، انھیں چاہیے کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے بھی لوکل باڈیز قانون میں ترامیم کریں: مصطفیٰ کمال (اے ایف پی)

سابق ناظم کراچی، متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رکن اور موجودہ پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کو اگر تھوڑا سا غصہ دلانا ہو تو انھیں صرف یہ یاد دلا دیں کہ وہ کبھی ایم کیو ایم کا حصہ تھے، وہ فورا آپ کو وہیں ٹوک دیں گے۔

ہفتے کو الحمرا آرٹس کونسل میں ہونے والے تھنک فیسٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے سوال کیا کہ آج کل پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں، آپ بھی ایم کیو ایم کا حصہ رہے ہیں تو آپ اس قربت کی وجہ کیا سمجھتے ہیں اور آیا پیپلز پارٹی نے آپ کی پاک سر زمین پارٹی سے بھی رابطے کی کوشش کی؟

اس سوال کا جواب میں پہلے تو وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ گلہ کیا: ’اس سوال میں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ ہم بھی ایم کیو ایم کا حصہ رہے ہیں۔‘

 پھر انھوں نے جواب دیا: ’یہ پولیٹیکل سٹنٹ ہے چونکہ یہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کا سال ہے، ویسے تو قومی حکومت کا بھی کچھ معلوم نہیں کہ کب وہاں بھی انتخابات ہو جائیں لیکن ان رابطوں کی وجہ یہ ہے کی سندھ، خاص طور پر کراچی کے لوگوں کی امیدوں پر نہ پیپلز پارٹی کی گورننس پوری اتری اور نہ ایم کیو ایم کی شہری حکومت۔

’دونوں نے مایوسی کیا ہے۔ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف سندھ اور مہاجر کارڈ استعمال کرتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ سیاسی شعبدہ بازی ہے اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے۔ اگر دونوں پارٹیاں مل بھی جائیں تو اس سے لوگوں کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہی مسائل کا حصہ ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ پچھلے ڈیڑھ برس میں پاکستان تحریک انصاف کو یہاں (کراچی) سے جو 14 سیٹیں ملیں انھوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ جس طرح تمام سیاسی جماعتیں آرمی ایکٹ قانون پاس کروانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں، انھیں چاہیے کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے بھی لوکل باڈیز قانون میں ترامیم کریں۔

انھوں نے عدلیہ، فوج اور تمام اداروں سے درخواست کی وہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سیاسی جماعتوں پر اسی طرح اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں کہ عوام کے لیے بھی کوئی قانون سازی ہو سکے۔

انھوں نے مشورہ دیا کہ لوکل باڈیز کے حوالے سے آرٹیکل 140 اے میں تبدیلی کی جائے۔ ’اس کے اندر ضلعی حکومت کے تمام قوائد و ضوابط ایک مرتبہ لکھ دیں، سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔‘

طلبہ یونین کی بحالی کے حوالے سے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ طلبا تنظیمیں بحال ہونی چاہییں۔’لوکل گورنمنٹس، یونین لیڈر یہ ہمارے ہاں نئی قیادت کی نرسریز ہیں اگر یہ نہ ہوں تو ہمارے ہاں گھوم پھر کر وہی سارے چہرے نظر آئیں گے۔‘

لوکل گورنمنٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کا سسٹم آمروں کے دور میں آیا، جمہوری حکومتوں نے کبھی اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جس سے ان کی نیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی لوکل گورنمنٹس کو دل سے نہیں مانا۔

انھوں نے یہ بھی تجویز دی کہ جس طرح وفاق سے صوبوں کو نیشنل فائنانس کمیشن (این ایف سی ایوارڈ) کے ذریعے پیسے دیے جاتے ہیں، اسی طرح صوبوں سے اضلاع کو پرووینشل فائنانس کمیشن (پی ایف سی ایوارڈ) کے ذریعے پیسے ملنے چاہییں۔

’وفاق سے پیسہ نکل کر چاروں وزرا اعلیٰ کے پاس پارک ہو جاتا ہے اور وہ پیسہ نیچے نہیں جاتا، یہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے اداروں کےحوالے سے بددلی آتی جارہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست